سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
11. بَابُ : الْحُكْمِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ
11. باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
Chapter: Ruling According to the Consensus of the Scholars
حدیث نمبر: 5399
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة هو ابن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: اكثروا على عبد الله ذات يوم , فقال عبد الله:" إنه قد اتى علينا زمان ولسنا نقضي، ولسنا هنالك، ثم إن الله عز وجل قدر علينا ان بلغنا ما ترون، فمن عرض له منكم قضاء بعد اليوم فليقض بما في كتاب الله، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، فليقض بما قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن جاء امر ليس في كتاب الله ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فليقض بما قضى به الصالحون، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم ولا قضى به الصالحون فليجتهد رايه ولا يقول إني اخاف، وإني اخاف فإن الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك امور مشتبهات فدع ما يريبك إلى ما لا يريبك". قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث جيد.
(موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔

وضاحت:
۱؎: مراد نیک علماء ہیں، کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صالحین صحابہ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و ائمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہو گا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہو سکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9399) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5399 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5399  
اردو حاشہ:
(1) اس باب سے امام صاحبؒ کا مقصود اجماع کی حجیت ثابت کرنا ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث سے اس کی حجیت ثابت ہوتی ہے، جیسے ﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء: 115:4) اور ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾ (البقرۃ: 143:2) اسی طرح [إنَّ اللہ قدْ أَجَارَ أَمَّتِیْ مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ علیٰ ضَلالة ] (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:1331) اس قسم کی آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اہل علم ایک بات پر اتفاق کر لیں تو کسی شخص کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، خواہ اس بات پر قرآن و حدیث سے کوئی صریح دلیل نہ ملتی ہو۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل یہی تھا کہ جب کسی مسئلے کی بابت صریح حکم نہ ہوتا تو اہل علم سے مشورہ فرماتے، پھر جس پر اتفاق ہو جاتا اسے اختیار کر لیتے لہٰذا اجماع کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جو اجتہاد شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہو اس سے رو گردانی اور اعراض کرنا نہ صرف گمراہی و بے دینی بلکہ شیطان کا آلۂ کار بننا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اجتہاد، نصوص کتاب وسنت کے مطابق ہونا چاہیے مخالف نہیں۔
(2) ایک وقت تھا اس سے رسول اللہ ﷺ اور شیخین رضی اللہ عنہما کا دور مراد ہے۔
(3) نیک لوگوں مراد اہل علم اور متقی حضرات ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5399   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.