كتاب الفرع والعتيرة کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل 1. بَابُ: باب:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرع اور عتیرہ واجب نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العقیقة 4 (5473)، الأضاحي 6 (1976)، سنن ابی داود/الأضاحي 20 (2831)، سنن الترمذی/الضحایا 15 (1512)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 2(3168)، (تحفة الأشراف: 13127، 13269)، مسند احمد (2/229، 239، 279، 490)، سنن الدارمی/الأضاحي 8 (2007) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فرع: زمانہ جاہلیت میں جانور کے پہلوٹے کو بتوں کے واسطے ذبح کرنے کو فرع کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ تعالیٰ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس سے منع کر دیا گیا۔ اور عتیرہ: زمانہ جاہلیت میں رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے تھے، اور اسلام کی ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے۔ کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لیے اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لیے ذبح کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ بلکہ مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کے روز قربانی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا (دوسری روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: ”فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 13127، 13269) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ دونوں اب واجب نہیں رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عرفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: ”لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال قربانی اور عتیرہ ہے“ ۱؎۔ معاذ کہتے ہیں: ابن عون رجب میں عتیرہ کرتے تھے، ایسا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 1(2788)، سنن الترمذی/الضحایا 19 (1518)، سنن ابن ماجہ/الضحایا 2 (3125)، (تحفة الأشراف: 11244)، مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: فرع اور عتیرہ کے سلسلے میں مروی تمام احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں ایام جاہلیت میں جاہلی انداز میں انجام دیئے جاتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہوتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں ان کو جائز قرار تو دیا، مگر وہ شرک و کفر سے خالی اور جاہلی عادات کی مشابہت سے دور ہو، اور اگر نہ انجام دیئے جائیں تو بہتر ہے، خاص طور پر فرع کو اگر چھوڑ رکھا جائے تو یہ جانور بڑا ہو کر زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، واللہ اعلم (دیکھئیے اگلی روایات)۔ قال الشيخ الألباني: حسن
محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے“۔ (یعنی دبلی ہو جائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے (کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہو گی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی“۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور عتیرہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”عتیرہ بھی حق ہے“ ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابوعلی حنفی چار بھائی ہیں: ابوبکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8701)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأضحایا21(2842)، مسند احمد 2/182 -183 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، آپ اپنی اونٹنی عضباء، پر سوار تھے۔ میں آپ کی ایک جانب گیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تم لوگوں کی مغفرت فرمائے“۔ پھر میں آپ کی دوسری جانب گیا، مجھے امید تھی کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں (کو اٹھا کر) فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف کرے“۔ پھر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! عتیرہ اور فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جو چاہے عتیرہ ذبح کرے اور جو چاہے نہ کرے اور جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے، بکریوں میں صرف قربانی ہے“، اور آپ نے اپنی سب انگلیاں بند کر لیں سوائے ایک کے (یعنی: سالانہ صرف ایک قربانی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3279)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المناسک 9 (1742)، مسند احمد (3/485) (ضعیف) (اس کے راوی ”یحیی بن زرارہ“ لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کے مضامین دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف فرمائے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے، پھر میں مڑا اور دوسری جانب گیا۔ اور پھر آگے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: ما قبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|