كتاب الفرع والعتيرة کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل 5. بَابُ: مَا يُدْبَغُ بِهِ جُلُودُ الْمَيْتَةِ باب: مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ گزرے، وہ اپنی ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹ رہے تھے، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم لوگ اس کی کھال رکھ لیتے“ (تو بہتر ہوتا)، انہوں نے کہا: وہ مردار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پانی اور سلم درخت کا پتا (جس سے دباغت دی جاتی ہے) پاک کر دیتے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 41 (4126)، (تحفة الأشراف: 18084)، مسند احمد (6/333، 334) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ ضروری نہیں کہ ہمارے زمانہ میں بھی دباغت کے لیے پانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے کانٹے دار درخت ہی کا استعمال کیا جائے، موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں جس پاک چیز سے بھی دباغت دی جائے مقصد حاصل ہو گا لیکن اس کے ساتھ پانی کا استعمال ضروری ہے ( «قرظ»: ایک سلم نامی کانٹے دار درخت کے پتے)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا گیا (اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا) کہ تم لوگ مردے کی بغیر دباغت کی ہوئی کھال یا پٹھے سے فائدہ مت اٹھاؤ“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 42 (4127)، سنن الترمذی/اللباس 7 (1727)، سنن ابن ماجہ/اللباس 26 (3613)، (تحفة الأشراف: 6642)، مسند احمد (4/310، 311)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4255، 4256) (صحیح) (الإرواء 38، وتراجع الالبانی 470)»
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اس حدیث کو ناسخ، اور ابن عباس اور میمونہ رضی اللہ عنہم کی حدیثوں کو منسوخ قرار دیا ہے کیونکہ یہ مکتوب آپ کی وفات سے چھ ماہ پہلے کا ہے، لیکن جمہور محدثین نے اس کے برخلاف پچھلی حدیثوں کو ہی سند کے لحاظ سے زیادہ صحیح ہونے کی بنیاد پر راجح قرار دیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں، پچھلی حدیثوں میں جو مردار کے چمڑے سے نفع اٹھانے کی اجازت ہے وہ دباغت کے بعد ہے، اور (مخضرم راوی) عبداللہ بن عکیم کی حدیث میں جو ممانعت ہے وہ دباغت سے پہلے کی ہے (دیکھئیے اگلی حدیث) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد نضر بن سہیل سے نقل کیا ہے کہ «إہاب» دباغت سے پہلے والے چمڑے کو کہتے ہیں، اور دباغت کے بعد چمڑے کو «شف» یا «قربۃ» کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عُکیم جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکھ بھیجا: ”تم لوگ مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عُکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو لکھا: ”مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ“۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اس باب میں ”مردار کی کھال جبکہ اسے دباغت دی گئی ہو“ سب سے صحیح حدیث زہری کی حدیث ہے جسے عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس سے اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں (نمبر ۴۲۳۹)، واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4254 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|