كتاب الفرع والعتيرة کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل 4. بَابُ: جُلُودِ الْمَيْتَةِ باب: مردار جانور کی کھال کے حکم کا بیان۔
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک پڑی ہوئی مردار بکری کے پاس سے ہوا، آپ نے فرمایا: ”یہ کس کی ہے؟“ لوگوں نے کہا: میمونہ کی۔ آپ نے فرمایا: ”ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتیں“، لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے (صرف) اس کا کھانا حرام کیا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 27 (364)، سنن ابی داود/اللباس 41 (4120)، سنن ابن ماجہ/اللباس 25 (3610)، (تحفة الأشراف: 18066)، مسند احمد (6/329، 336)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4242 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے جسم کے دیگر اعضاء مثلاً بال، دانت، سینگ وغیرہ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردار بکری کے پاس سے ہوا جو آپ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو دی تھی، آپ نے فرمایا: ”تم نے اس کی کھال سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ”اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 61 (1492)، البیوع 101 (2221)، الذبائح 30 (5531)، صحیح مسلم/الحیض27(364)، سنن ابی داود/اللباس 41 (4120)، (تحفة الأشراف: 5839)، موطا امام مالک/الصید 6 (116)، مسند احمد 1/365)، سنن الدارمی/الأضاحي 20 (2031، 2032)، ویأتي بأرقام: 4243، 4244 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردار بکری کو دیکھا جو ام المؤمنین میمونہ کی لونڈی کی تھی اور وہ بکری صدقے کی تھی، آپ نے فرمایا: ”اگر لوگوں نے اس کی کھال اتار لی ہوتی اور اس سے فائدہ اٹھایا ہوتا“ (تو اچھا ہوتا)۔ لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے، آپ نے فرمایا: ”صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک بکری مر گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اس سے فائدہ اٹھاتے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4239 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اسے دباغت دے کر فائدہ اٹھا لیتے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 27 (3631)، (تحفة الأشراف: 5947)، مسند احمد (1/277) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے اس کی کھال سے فائدہ نہیں اٹھایا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5774) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مر گئی تو ہم نے اس کی کھال کو دباغت دی، پھر ہم اس میں ہمیشہ نبیذ بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان والنذور 21 (6686)، (تحفة الأشراف: 15896)، مسند احمد (6/429) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کھال کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہو گئی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 27 (366)، سنن ابی داود/اللباس 41 (4123)، سنن الترمذی/اللباس 7 (1728)، سنن ابن ماجہ/اللباس 25 (3609)، (تحفة الأشراف: 15896)، موطا امام مالک/الصید 6 (17)، مسند احمد 1/219، 237، 270، 279، 280، 343، سنن الدارمی/الأضاحي 20 (2028) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حلال جانور کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو گی، اور اس کا استعمال جائز ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبدالرحمٰن بن وعلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ہم لوگ مغرب کے علاقہ میں جہاد کو جا رہے ہیں، وہاں کے لوگ بت پرست ہیں، ان کے پاس مشکیں ہیں جن میں دودھ اور پانی ہوتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دباغت کی ہوئی کھالیں پاک ہوتی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: یہ آپ کا خیال ہے یا کوئی بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا: بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سنی) ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ایک عورت کے پاس سے پانی منگوایا۔ اس نے کہا: میرے پاس تو ایک ایسی مشک کا پانی ہے جو مردار کی کھال کی ہے، آپ نے فرمایا: ”تم نے اسے دباغت نہیں دی تھی؟“ وہ بولی: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 41 (4125)، (تحفة الأشراف: 4560)، مسند احمد (3/476 و5/6، 7) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مردار کی کھال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 16051)، مسند احمد (6/155) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مردے کی کھالوں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15966)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4251، 4252) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4250 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4250 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|