Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الفرع والعتيرة
کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
1. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 4230
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الْفَرَعَ، قَالَ:" حَقٌّ، فَإِنْ تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ فَيَلْصَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ فَتُكْفِئَ إِنَاءَكَ , وَتُولِهُ نَاقَتَكَ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَالْعَتِيرَةُ. قَالَ:" الْعَتِيرَةُ حَقٌّ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ: هُمْ أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ أَحَدُهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَبِشْرٌ، وَشَرِيكٌ، وَآخَرُ.
محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے۔ (یعنی دبلی ہو جائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے (کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہو گی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور عتیرہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: عتیرہ بھی حق ہے ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابوعلی حنفی چار بھائی ہیں: ابوبکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8701)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأضحایا21(2842)، مسند احمد 2/182 -183 (حسن)»

وضاحت: ۱؎: یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4230 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4230  
اردو حاشہ:
(1) آپ کا مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا تو ٹھیک ہے مگر وہ کام کرنا چاہیے جس کے کرنے سے زیادہ فائدہ ہو۔ لوگ بچہ پیدا ہوتے ہی اسے ذبح کردیتے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ گوشت صرف چھیچھڑوں کی صورت میں ہوتا تھا جو کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس قدر قلیل کہ گوشت پوست میں امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ اونٹنی غم کی وجہ سے دودھ سے بھی جواب دے دیتی تھی۔ گویا کسی کو بھی فائدہ نہ ہوا۔ الٹا گھر کا نقصان ہوگا، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے بڑا ہونے دیا جائے حتیٰ کہ جب وہ سواری کے قابل ہوجائے تو پھر جہاد فی سبیل اﷲ میں سواری کے لیے دیا جائے، کسی بیوہ کودے دیا جائے یا وہ جانور کسی محتاج ومسکین کو دے دیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔
(2) فرع، یعنی جانور کا پہلا بچہ پیدا ہونے یا سو جانور پورے ہونے پر جانور ذبح کرنا، درست ہے۔ اسلام سے پہلے اس قسم کا جانور بتوں اور معبودانِ باطلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور انھی کی خاطر ذبح کیا جاتا، لیکن اسلام میں اس تصور کو جڑے اکھیڑ دیا گیا۔ غیر اﷲ کے لیے جانور ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بطور صدقہ جانور ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا گیا۔ یہ اب بھی مستحب اور حصول ثواب و دفع مصیبت کا بہترین ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کرنا صرف یہ نہیں کہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا جائے بلکہ فی سبیل اﷲ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں بہت سی بہتر صورتیں موجود ہیں جو صدقہ کرنے والے کے لیے کہیں زیادہ اجر وثواب کا سبب ہیں۔
(4) جانوروں کے نو زائدہ بچوں کو ذبح کرنا یا ان کی ماؤں سے جدا کرنا قطعاََ پسندیدہ نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے ماں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بے چین وبے قرار ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے اس بچے کی ماں کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4230