کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور 48. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ وَبَيَانِ مَعْنَاهُ: باب: قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان۔
مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے انھوں نے عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان اس سے مختلف (صورت میں) پڑھتے سنا جس طرح میں پڑھتا تھا۔، حالانکہ مجھے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھائی تھی، قریب تھا کہ میں اس سے جھگڑا کرنے میں جلد بازی سے کام لیتا لیکن میں نے اس کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا، پھر میں نے اسے گلے کی چادر سے اسے باندھا اور کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اس کو اس طرح سورہ فرقان پڑھتے ہوئےسنا ہے جو اس سے مختلف ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ سورت پڑھائی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" اسے چھوڑ دو (اور اسے مخاطت ہوکر فرمایا:) پڑھو۔" تو اس نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔"پھر مجھ سے کہا: "تم پڑھو۔"میں نے پڑھا تو (اس پر بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سورت اسی طرح اتری تھی۔بلاشبہ یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔پس ان میں سے جو تمھارے لئے آسان ہواسی کے مطابق پڑھو۔"
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ مسود بن مخرمہ اور عبدالرحمان بن عبدالقاری نے بتایا کہ ان دونوں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہشام بن حکیم کو سورہ فرقان پڑھتے سنا۔۔۔آگے اسی کے مانند حدیث سنائی اور یہ اضافہ کیا کہ قریب تھا کہ میں اس پر نماز پر ہی پل پڑوں، میں نے بڑی مشکل سے صبر کیا یہاں تک کہ اس نے سلام پھیرا۔
معمر نے زہری سے یونس کی روایت کی طرح اسی کی سند کے ساتھ روایت کی۔
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جبرئیل علیہ السلام نے مجھے ایک حرف پر (قرآن) پڑھایا، میں نے ان سے مراجعت کی، پھر میں زیادہ کا تقاضا کرتا رہا اور وہ میرے لئے حروف میں اضافہ کرتے گئے یہاں تک کہ سات حرفوں تک پہنچ گئے۔" ابن شہاب نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ پڑھنے کی یہ سات صورتیں (سات حروف) ایسے معاملے میں ہوتیں جو (حقیقتاً اور معناً) ایک ہی رہتا، (ان کی وجہ سے) حلال وحرام کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہ ہوتا۔
ہمیں معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ خبر دی۔
عبداللہ بن نمیر نے کہا: اسماعیل بن ابی خالد نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن عیسیٰ بن عبدالرحمان بن ابی یعلیٰ سے، انھوں نے اپنے دادا (عبدالرحمان) سے اور انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی داخل ہوا، نماز پڑھنے لگا اور اس نے جس طرح قراءت کی اس کو میں نے اس کے سامنے ناقابل مقبول قرار دے دیا۔پھر ایک اور آدمی آیا، پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسی قراءت کی جو اس کے ساتھی (پہلے آدمی) کی قراءت سے مختلف تھی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت کی جو میں نے اس کے سامنے رد کردی اور دوسرا آیا تو اس نے اپنے ساتھی سے بھی الگ قراءت کی۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے انداز کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپ کی تکذیب (جھٹلانے) کا داعیہ اس زور سے ڈالا گیا جتنا اس وقت بھی نہ تھا جب میں جاہلیت میں تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر طاری ہونے والی اس کیفیت کو دیکھا تو میرے سینے میں مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا، جیسے میں ڈر کے عالم میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "میرے پاس حکم بھیجا گیا کہ میں قرآن ایک حرف (قراءت کی ایک صورت) پر پڑھوں۔تو میں نے جواباً درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیں۔تو میرے پاس دوبارہ جواب بھیجا کہ میں اسے دو حرفوں پر پڑھوں۔میں نے پھر عرض کی کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیں۔تو میرئے پاس تیسری بار جواب بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھیے، نیز آپ کے لئے ہر جواب کے بدلے جو میں نے دیا ایک دعا ہے جو آپ مجھ سے مانگیں۔میں نے عرض کی: اے میرے اللہ!میری امت کو بخش دے۔اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف راغب ہوں گے۔"
محمد بن بشر نے اسماعیل بن ابی خالد سے اسی سند کے ساتھ روایت کی کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں اس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھی، اس نے اس طرح قراءت کی۔۔۔ (آگے) عبداللہ بن نمیر کی طرح حدیث بیان کی۔
محمد بن جعفر غندر نے شعبہ سے روایت کی، انھوں نے حکم سے، انھوں نے مجاہد سے، انھوں نے ابن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو غفار کے اضاۃ (بارانی تالاب) کے پاس تشریف فرما تھے۔کہا: آپ کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی امت ایک حرف (قراءت کی صورت) پر قرآن پڑھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اللہ تعالیٰ سے اس کا عفو (درگزر) اور اس کی مغفرت چاہتاہوں میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔"پھر وہ جبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ کے پاس آئے۔اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپ کی امت دو حرفوں پرقرآن پڑھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "میں اللہ تعالیٰ سے اس کا عفو اور بخشش مانگتا ہوں، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر وہ جبرئیل علیہ السلام تیسری بار آپ کے پاس آئے۔اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپ کی امت تین حرفوں پرقرآن پڑھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "میں اللہ تعالیٰ سے اس کا عفو اور بخشش مانگتا ہوں، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر وہ جبرئیل علیہ السلام چوتھی مرتبہ آپ کے پاس آئے۔اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپ کی امت سات حرفوں پرقرآن پڑھے۔وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے ٹھیک پڑھیں گے۔
معاذ عنبری نےشعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
|