Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
48. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ وَبَيَانِ مَعْنَاهُ:
باب: قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1899
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، فَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا، " يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْسِلْهُ اقْرَأْ، فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ لِي: اقْرَأْ، فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ".
مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے انھوں نے عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان اس سے مختلف (صورت میں) پڑھتے سنا جس طرح میں پڑھتا تھا۔، حالانکہ مجھے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھائی تھی، قریب تھا کہ میں اس سے جھگڑا کرنے میں جلد بازی سے کام لیتا لیکن میں نے اس کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا، پھر میں نے اسے گلے کی چادر سے اسے باندھا اور کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اس کو اس طرح سورہ فرقان پڑھتے ہوئےسنا ہے جو اس سے مختلف ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ سورت پڑھائی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" اسے چھوڑ دو (اور اسے مخاطت ہوکر فرمایا:) پڑھو۔" تو اس نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔"پھر مجھ سے کہا: "تم پڑھو۔"میں نے پڑھا تو (اس پر بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سورت اسی طرح اتری تھی۔بلاشبہ یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔پس ان میں سے جو تمھارے لئے آسان ہواسی کے مطابق پڑھو۔"
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان اپنے انداز میں پڑھتے سنا، جو میرے اسلوب قراءت سے الگ تھا، حالانکہ یہ سورت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی تھی، تو قریب تھا کہ میں (اس کے مواخذہ وگرفت میں) جلد بازی سے کام لوں، لیکن میں نے اس کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا،پھر میں نے اسے گلے کی چادر سے اسے باندھا اور کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اس کو اس طرح سورہ فرقان پڑھتے ہوئےسنا ہے جو اس سے مختلف ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ سورت پڑھائی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" اسے چھوڑ دو(اور اسے مخاطت ہوکر فرمایا:)پڑھو۔" تو اس نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔"پھر مجھ سے کہا:"تم پڑھو۔"میں نے پڑھا تو(اس پر بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ سورت اسی طرح اتری تھی۔بلاشبہ یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔پس ان میں سے جو تمھارے لئے آسان ہواسی کے مطابق پڑھو۔"
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1899 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1899  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ:
میں نے اس کے گلے میں،
اس کی چادر ڈال کر کھینچا۔
(2)
كِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ:
قریب تھا کہ میں جلدی سے اس پر پل پڑوں،
قراءت کے دوران ہی اسے پکڑ لوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1899   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4992  
4992. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، سیدنا ہشام بن حکیم ؓ کو دوران نماز سورہ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت پر غور کیا تو وہ کئی ایسے حروف پڑھتے تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں صبر سے کام لیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور کہا: یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنا ہے، آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہاری اس قراءت سے مختلف پڑھائی ہے۔ آخر میں اسے کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور عرض کی کہ میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ایسی قراءت میں پڑھتے سنا ہے جس کی آپ نے مجھے تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4992]
حدیث حاشیہ:
سات طریقوں یا سات حرفوں سے سات قرآت مراد ہیں۔
جیسے مالكِ یومِ الدین میں ملكِ یومِ الدین اور ملاكِ یومِ الدین مختلف قراءتیں ہیں ان سے معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے ان ساتوں قراءتوں پر قراءت قرآن کریم جائز ہے۔
ہاں مشہور عام قراءت وہ ہیں جن میں موجودہ قرآن مجید مصحف عثمانی کی شکل میں موجود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4992   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5041  
5041. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ میں نے ان کی قرات وتلاوت غور سے سنی تو (معلوم ہوا کہ) وہ اسے بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول للہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں انہیں پکڑ لیتا، تاہم میں نے انتظار کیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال دی اور انہیں کھینچتے ہوئے کہا: تجھے یہ سورت کس نے پڑھائی جو میں نے تجھے پڑھتے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ تم غلط بیانی کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے جو میں نے تجھ سے سنی ہے تاہم میں انہیں کھینچھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5041]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث شریف میں سورۃ فرقان کا لفظ ہے۔
باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امور مختلفہ میں انشقاق و افتراق سے بچنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5041   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7550  
7550. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ہشام بن حکیم ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت کی طرف کان لگایا تو وہ قرآن مجید بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کردیتا لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی گردن میں چادر کا پھندا ڈال دیا اور کہا: تمہیں یہ سورت اس طرح کس نے پڑھائی ہے جو میں نے ابھی تم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے اس طرح رسول اللہﷺ نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو مجھے تو خود رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت اس طرح (تمہاری قراءت) کے علاوہ طریقے پر پڑھائی ہے۔ پھر میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور کہا:اللہ کے رسول! میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7550]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ قرأت اور چیز ہے اور قرآن اورچیز ہے اس لیے قرأت میں اختلاف ہو سکتا ہے جیسے عمر اورہشام کی قرأت میں ہوا۔
مگر قرآن میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔
قرأت قرآن میں سب سے زیادہ آسان سورۂ فاتحہ ہے۔
لہذا وہ بھی اس میں داخل ہے۔
یہ بھی مطلب ہے کہ جہاں سےقرآن مجید یاد ہو وہاں سے قرأت کرسکتے ہو اور جتنا آسانی سے قرأت کر سکو اتناہی قرأت کرو۔
اما م کو خاص ہدایت ہے کہ وہ قرأت کے وقت مقتدیوں کا ضرور لحاظ رکھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7550   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4992  
4992. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، سیدنا ہشام بن حکیم ؓ کو دوران نماز سورہ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت پر غور کیا تو وہ کئی ایسے حروف پڑھتے تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں صبر سے کام لیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور کہا: یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنا ہے، آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہاری اس قراءت سے مختلف پڑھائی ہے۔ آخر میں اسے کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور عرض کی کہ میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ایسی قراءت میں پڑھتے سنا ہے جس کی آپ نے مجھے تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4992]
حدیث حاشیہ:

حروف سبعہ کی تعیین میں بہت اختلاف ہے۔
بعض اہل علم نے اس سے سات لغات مراد لی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت ہشام اور حضرت عمرؓ دونوں قریشی تھے، ان کی لغت ایک تھی، اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا۔
یہ کوئی معقول بات نہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ہی آدمی کو قرآن مجید ایسی لغت میں سکھلائیں جو اس کی لغت نہ ہو۔
بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے مراد ایک معنی کو مختلف حروف و الفاظ سے ادا کرنا ہے اگرچہ ایک ہی لغت ہو کیونکہ حضرت عمر اور حضرت ہشامؓ کی ایک ہی لغت تھی۔
اس کے باوجود ان کی قراءت میں اختلاف ہوا۔
اس سلسلے میں دو باتوں پر اتفاق ہے:
۔
قرآن کریم کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
۔
سبعہ حروف سے مراد ان سات ائمہ کی قراءت ہر گز نہیں جو اس سلسلے میں مشہور ہیں کیونکہ سب سے پہلا شخص جس نے ان سات قراءات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چھٹی صدی سے ہے۔

امام جزری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتا تھا حتی کہ میں نے تیس سے زیادہ سال تک اس پر غور و خوض کیا۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قراءت کا اختلاف سات وجوہ سے باہر نہیں ہے جو حسب ذیل ہیں:
۔
معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہو، جیسا کہ کلمہ یَحسَبُ کو دو طرح اور کلمہ بُخل کو چار طرح پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت خطی میں اختلاف کی بجائے صرف معنی میں اختلاف ہو، جیسا کہ ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ﴾ کو دو طرح پڑھا گیا ہے:
آدم کی رفعی اور کلمات کی نصبی حالت۔
٭آدم کی نصبی اور کلمات کی رفعی حالت۔
۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائے گا جیسا کہ تبلوا کو تتلوا پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، لیکن اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، جیسا کہ بصطۃ کو بسطۃ اور الصراط کو السراط پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائےصورت خطی اور حروف دونوں کی تبدیلی ہو گی جس سے معنی بھی تبدیل ہو گا، جیسا کہ أشد منکم کو أشد منهم پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائےتقدیم و تاخیر کا اختلاف ہو گا، جیسا کہ فیقتلون ویقتلون میں ہے، اس میں پہلا معروف اور دوسرا مجہول ہے اسے یوں پڑھا گیا ہے۔
ویقتلون فیقتلون۔
۔
حروف کی کمی بیشی میں اختلاف ہو گا، جیسا کہ و أوصی کو و وصی پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و ادغام، روم و اشمام، تفخیم و ترقیق، مد و قصر، امالہ و فتح، تحقیق و تسہیل اور ابدال و نقل وغیرہ جسے فن قراءت میں اصول کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس سے معنی یا لفظ میں تبدیلی آتی ہو (النشر: 1/26)
۔
دور حاضر میں بعض اہل علم کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک ہی قراءت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے، اس کے علاوہ جو قراءت مدارس میں پڑھی یا پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں وہ سب فتنۂ عجم کی باقیات ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق مذکورہ دعوی بلا دلیل ہے کیونکہ یہ قراءات صحابہ وتابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر اور اس کے مطابق ہیں۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے:
جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگر یہ مطابقت بوجہ ہو۔
مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔
اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراءت صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔
اگر ان تینوں شرائط میں سے کسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔
(النشر: 9/1)
بہرحال قراءات متواترہ جنھیں احادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجود ہیں اور ان کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تدوین قرآن کے وقت عربی کتابت نقاط وحرکات سے خالی ہوتی تھی، اس لیے ایک ہی نقش میں مختلف قراءات کے سما جانے کی گنجائش تھی۔
لوگوں کی سہولت کےلیے جب حروف پر نقاط حرکات لگیں تو قرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراءت میں شائع ہونے لگے، چنانچہ ہمارے ہاں برصغیر میں قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، اس طرح مغرب،الجزائر،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت نافع بروایت ورش عام ہے اور اسی کے مطابق قرآن کریم کی اشاعت ہوتی ہے چنانچہ راقم نے مدینہ طیبہ میں دوران تعلیم میں قراءت نافع بروایت قالون اور بروایت ورش دونوں الگ الگ مصاحف دیکھے تھے، نیز قراءت امام کسائی کا مصحف بھی نظر سے گزراتھا۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں روایت حفص پر مشتمل مصاحف ہی دستیاب ہیں، اس لیے اسے قرآن کے مترادف خیال کیا جاتاہے اور اس بنیاد پر دوسری متواتر قراءات کا انکار کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب کے مجمع الملک فہد نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش، روایت دوری اور روایت قالون کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کے لیے طبع کیے ہیں جن میں ان کے مطابق قراءت کی جاتی ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4992   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5041  
5041. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ میں نے ان کی قرات وتلاوت غور سے سنی تو (معلوم ہوا کہ) وہ اسے بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول للہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں انہیں پکڑ لیتا، تاہم میں نے انتظار کیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال دی اور انہیں کھینچتے ہوئے کہا: تجھے یہ سورت کس نے پڑھائی جو میں نے تجھے پڑھتے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ تم غلط بیانی کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے جو میں نے تجھ سے سنی ہے تاہم میں انہیں کھینچھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5041]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں "سورۃ الفرقان" کا لفظ موجود ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ انداز اختیار کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اسے اس سورت میں لکھو جس میں فلاں چیز کا ذکر ہے، تاہم اجماع اسی بات پر ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کہنے میں کوئی حرج نہیں۔

مصاحف اور کتب تفسیر میں یہی انداز اختیار کیا گیا ہے اور حدیث ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پہلے گزر چکی ہے وہ جواز پر دلالت کرتی ہے۔
(فتح الباري: 110/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5041   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7550  
7550. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ہشام بن حکیم ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت کی طرف کان لگایا تو وہ قرآن مجید بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کردیتا لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی گردن میں چادر کا پھندا ڈال دیا اور کہا: تمہیں یہ سورت اس طرح کس نے پڑھائی ہے جو میں نے ابھی تم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے اس طرح رسول اللہﷺ نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو مجھے تو خود رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت اس طرح (تمہاری قراءت) کے علاوہ طریقے پر پڑھائی ہے۔ پھر میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور کہا:اللہ کے رسول! میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7550]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخری حصے سے عنوان ثابت کیا ہے کہ جس قرآءت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے" پڑھنے۔
" کو صحابہ کی طرف منسوب کیا ہے۔
یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن پڑھنا ان کا فعل ہے۔
کیونکہ اس میں سہولت کا وصف پایا جاتا ہے۔
لوگ اس میں مختلف ہوتے ہیں۔
قرآءت میں اختلاف ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآءت میں ہوا مگر قرآن کریم اختلاف کا محل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور قرآن مجید سہولت کے مطابق پڑھنا بندوں کا فعل ہے جو مخلوق ہے یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جہاں سے قرآن یاد ہو وہاں سے قرآءت کر سکتے ہیں اور جس قدر آسانی سے پڑھا جائے اتنا ہی پڑھنا چاہیے البتہ امام کو ہدایت ہے کہ وہ قرآءت کرتے وقت اپنے مقتدیوں کا ضرور خیال رکھے۔
انتہائی ضروری نوٹ:
۔
حروف سبعہ کی تعیین میں بہت اختلاف ہے۔
بعض لوگوں نے اس سے سات لغات مراد لی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں قریشی تھے۔
ان کی لغت ایک تھی اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا۔
یہ کوئی معقول بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی آدمی کو قرآن مجید ایسی لغت میں سکھائیں جو اس کی لغت نہ ہو۔
بعض نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے مراد ایک معنی کو مختلف مراد ف (ہم معنی)
الفاظ سے ادا کرنا ہے اگرچہ ایک ہی لغت سے ہو کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ہی لغت تھی لیکن اس کے باوجود ان کی قرآءت میں اختلاف ہوا۔
اس سلسلے میں دو باتوں پر اتفاق ہے۔
قرآن کریم کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشترکلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
سبعہ حروف سے مرادان سات آئمہ کی قرآءت ہر گز نہیں جو اس سلسلے میں مشہور ہوئے ہیں۔
کیونکہ پہلا شخص جس نے ان سات قرآءت کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہیں جن کا تعلق چوتھی صدی سے ہے۔
امام جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتا تھا حتی کہ میں نے تیس سے زیادہ سال اس پر غور وفکر کیا۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآءت کا اختلاف سات وجوہ سے باہر نہیں ہے۔
وہ حسب ذیل ہیں۔
معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہوگا جیسا کہ(بخل)
کو چار طرح سے پڑھا گیا ہے۔
(بُخلّ)
بروزن قُفلّ،بَخَلّ بروزن كَرّم،بخّل بروزن فَقرّاور بُخُلّ۔
اور کلمہ (يَحسبُ)
کو"س"کے زبر اور زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی میں اختلاف کے بجائے صرف معنی میں اختلاف ہوگا جیساکہ(فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ)
کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔
آدم کی رفعی اور کلمات کی کی نصبی حالت۔
آدم کی نصبی اور کلمات کی رفعی حالت۔
صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہوگی۔
جس سے معنی بھی بدل جائے گا جیسا کہ(تَبلُوا كو تَتلُوا)
پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی لیکن اس سے معنی تبدیل نہیں ہو گا۔
جیسا کہ (بَصطَة كو بَسطَة)
کو (الصِرَاط كو السِرَاط)
پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی اور حروف دونوں کی تبدیلی ہوگی جس سے معنی بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(أَشَدَّ مِنْكُمْ كو أَشَدُّ مِنْهُم)
پڑھا گیا ہے
تقدیم و تاخیر کا اختلاف ہو گا جیسا کہ (فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ)
میں ہے۔
اس میں پہلا معروف اور دوسرا مجہول ہے۔
اسے یوں پڑھا گیا ہے۔
(وَيُقْتَلُونَ فَيَقْتُلُونَ)
حروف کی کمی و بیشی میں اختلاف ہوگا جیسا کہ (وًأَوْصّى)
کو(وَوَصَّى)
پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و ادغام، روم و اشمام، تفخیم، و ترقیق مدو قصر امالہ وفتح تخفیف و تسہیل اور ابدال و نقل وغیرہ۔
جسے فن قراءت میں اصول کا نام دیا جاتا ہے یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس سے معنی یا لفظ میں تبدیلی آتی ہو۔
(النشر۔
ص: 1/26)

دور حاضر میں بعض اہل علم کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک ہی قرآءت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے اس کے علاوہ جو قرآءت مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں وہ سب فتنہ عجم کی باقیات ہیں ہمارے رجحان کے مطابق مذکورہ دعوی بلادلیل ہے کیونکہ یہ قرآءت صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر اور اس کے مطابق ہیں نیز یہ اجماع امت سے ثابت ہیں جس طرح ہمارے روایت حفص کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اسی طرح شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں روایت ورش کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی سرکاری اہتمام کے ساتھ انھیں شائع کرتی ہیں میری ذاتی لائبریری میں روایت ورش کے مصحف موجود ہیں حال ہی میں سعودی عرب کے مجمع الملک فہد (مدینہ طیبہ)
نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش روایت دوری اورروایت کالون کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کے لیے طبع کیے ہیں جن میں ان کے مطابق قرآءت کی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قرآءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ موجود مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قرآءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اوریہ ساری قرآءت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قرآءت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے۔
" جو قرآءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ یہ موافقت کسی ایک جہت سے ہو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو نیز وہ صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔
"اس اصول کے مطابق جو بھی قرآءت ہو گی وہ قرآءت صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔
مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگر تینوں شرائط میں سےکسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قرآءت شاذہ ضعیف یا باطل ہوگی۔
(النشرص: 1/9)
یہ بات کہ تمام قرآءت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصاحف میں سماجاتی ہیں ہم اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔
سورہ فاتحہ کی آیت (مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ)
کو لیجئے۔
اسے رسم عثمانی میں اعراب اور نقطوں کے بغیر یوں لکھا گیا ہے (مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ)
اس آیت میں (ملك)
اور(مٰالِكِ)
اور(مَالِكِ)
دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قرآءت متواترہ ہیں روایت حفص میں سے (مٰالِكِ)
میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں سے (مَالِكِ)
میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں حجاز میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں یعنی روز جزا کا مالک یا روز جزا کا بادشاہ جو کسی علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے وہ اس کا مالک ہی ہوتا ہے لیکن جس مقام پر اختلاف قرآءت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قرآءت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے۔
مثلاً:
سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے(مَلِكِ النَّاسِ)
اسے تمام قرآء(مَلِكِ النَّاسِ)
ہی پڑھتے ہیں۔
اسے کوئی بھی (مٰلِكِ النَّاسِ)
کھڑے زبرکے ساتھ نہیں پڑھتا کیونکہ یہاں اختلاف قرآءت منقول نہیں ہے۔
دراصل قرآءت متواترہ کے اختلاف سے قرآن کریم میں کوئی ایسا رد بدل نہیں ہوتا جس سے اس کے مفہوم اور معنی تبدیل ہو جائیں یا حلال حرام ہو جائے بلکہ اختلاف قرآءت کے باوجود بھی قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
بہر حال قرآءت متواترہ جنھیں احادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجود ہیں اور اس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7550