صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
52. باب إِسْلاَمِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ:
باب: عمرو بن عبسہ کا اسلام قبول کرنا۔
Chapter: How `Amr bin `Abasah became Muslim
حدیث نمبر: 1930
Save to word اعراب
حدثني احمد بن جعفر المعقري ، حدثنا النضر بن محمد ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا شداد بن عبد الله ابو عمار ، ويحيى بن ابي كثير ، عن ابي امامة ، قال عكرمة : ولقي شداد، ابا امامة، وواثلة، وصحب انسا إلى الشام، واثنى عليه فضلا وخيرا، عن ابي امامة ، قال: قال عمرو بن عبسة السلمي : كنت وانا في الجاهلية اظن ان الناس على ضلالة، وانهم ليسوا على شيء وهم يعبدون الاوثان، فسمعت برجل بمكة يخبر اخبارا، فقعدت على راحلتي فقدمت عليه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم مستخفيا جرآء عليه قومه، فتلطفت حتى دخلت عليه بمكة، فقلت له: ما انت، قال: " انا نبي "، فقلت: وما نبي؟ قال: " ارسلني الله "، فقلت: وباي شيء ارسلك؟ قال: " ارسلني بصلة الارحام، وكسر الاوثان، وان يوحد الله لا يشرك به شيء "، قلت له: فمن معك على هذا؟ قال: " حر وعبد "، قال: " ومعه يومئذ ابو بكر، وبلال ممن آمن به "، فقلت: إني متبعك، قال: " إنك لا تستطيع ذلك يومك هذا، الا ترى حالي وحال الناس، ولكن ارجع إلى اهلك، فإذا سمعت بي قد ظهرت، فاتني "، قال: فذهبت إلى اهلي، وقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وكنت في اهلي، فجعلت اتخبر الاخبار، واسال الناس حين قدم المدينة حتى قدم علي نفر من اهل يثرب من اهل المدينة، فقلت: ما فعل هذا الرجل الذي قدم المدينة؟ فقالوا: الناس إليه سراع، وقد اراد قومه قتله فلم يستطيعوا ذلك، فقدمت المدينة فدخلت عليه، فقلت: يا رسول الله اتعرفني؟ قال: " نعم انت الذي لقيتني بمكة "، قال: فقلت: بلى، فقلت: يا نبي الله اخبرني عما علمك الله واجهله، اخبرني، عن الصلاة، قال: " صل صلاة الصبح ثم اقصر، عن الصلاة حتى تطلع الشمس، حتى ترتفع فإنها تطلع حين تطلع بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، ثم صل فإن الصلاة مشهودة محضورة، حتى يستقل الظل بالرمح، ثم اقصر، عن الصلاة فإن حينئذ تسجر جهنم، فإذا اقبل الفيء فصل فإن الصلاة مشهودة محضورة، حتى تصلي العصر، ثم اقصر، عن الصلاة حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، قال: فقلت: يا نبي الله فالوضوء حدثني عنه، قال: " ما منكم رجل يقرب وضوءه، فيتمضمض ويستنشق فينتثر إلا خرت خطايا وجهه وفيه وخياشيمه، ثم إذا غسل وجهه كما امره الله إلا خرت خطايا وجهه من اطراف لحيته مع الماء، ثم يغسل يديه إلى المرفقين إلا خرت خطايا يديه من انامله مع الماء، ثم يمسح راسه إلا خرت خطايا راسه من اطراف شعره مع الماء، ثم يغسل قدميه إلى الكعبين إلا خرت خطايا رجليه من انامله مع الماء، فإن هو قام فصلى فحمد الله واثنى عليه ومجده بالذي هو له اهل، وفرغ قلبه لله إلا انصرف من خطيئته كهيئته يوم ولدته امه ". فحدث عمرو بن عبسة بهذا الحديث، ابا امامة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له ابو امامة: يا عمرو بن عبسة انظر ما تقول في مقام واحد يعطى هذا الرجل، فقال عمرو: يا ابا امامة لقد كبرت سني ورق عظمي واقترب اجلي، وما بي حاجة ان اكذب على الله ولا على رسول الله، لو لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مرة او مرتين او ثلاثا حتى عد سبع مرات ما حدثت به ابدا، ولكني سمعته اكثر من ذلك.
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ ، ويَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ عِكْرِمَةُ : وَلَقِيَ شَدَّادٌ، أَبَا أُمَامَةَ، ووَاثِلَةَ، وَصَحِبَ أَنَسًا إِلَى الشَّامِ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَضْلًا وَخَيْرًا، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ : كُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا، فَقَعَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفِيًا جُرَآءُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ، فَتَلَطَّفْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ، قَالَ: " أَنَا نَبِيٌّ "، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيٌّ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي اللَّهُ "، فَقُلْتُ: وَبِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ "، قُلْتُ لَهُ: فَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ "، قَالَ: " وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَكْرٍ، وَبِلَالٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ "، فَقُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ: " إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، أَلَا تَرَى حَالِي وَحَالَ النَّاسِ، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ، فَأْتِنِي "، قَالَ: فَذَهَبْتُ إِلَى أَهْلِي، وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَكُنْتُ فِي أَهْلِي، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ، وَأَسْأَلُ النَّاسَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيَّ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ يَثْرِبَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدِمَ الْمَدِينَةَ؟ فَقَالُوا: النَّاسُ إِلَيْهِ سِرَاعٌ، وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: " نَعَمْ أَنْتَ الَّذِي لَقِيتَنِي بِمَكَّةَ "، قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ، أَخْبِرْنِي، عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ: " صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَالْوُضُوءَ حَدِّثْنِي عَنْهُ، قَالَ: " مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ يُقَرِّبُ وَضُوءَهُ، فَيَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ فَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ وَفِيهِ وَخَيَاشِيمِهِ، ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رِجْلَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلَّا انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". فَحَدَّثَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، أَبَا أُمَامَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ فِي مَقَامٍ وَاحِدٍ يُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ، فَقَالَ عَمْرٌو: يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي، وَمَا بِي حَاجَةٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَلَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ مَا حَدَّثْتُ بِهِ أَبَدًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
ابو عمار شداد بن عبداللہ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو امامہ سے روایت کی۔۔۔عکرمہ نے کہا: شداد ابو امامہ اور واثلہ رضی اللہ عنہ سے مل چکا ہے، وہ شام کے سفر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہااور ان کی فضیلت اور خوبی کی تعریف کی۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ نےکہا: میں جب اپنے جاہلیت کے دور میں تھا تو (یہ بات) سمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی (سچی) چیز (دین) پر نہیں، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آگیا، اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے تھے، آپ کی قوم (کے لوگ) آپ کے خلاف دلیر، اور جری تھے۔میں ایک لطیف تدبیر اختیار کرکے مکہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے پوچھا آپ کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نبی ہوں۔"پھر میں نے پوچھا: "نبی کیا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔"میں نے کہا: آپ کو کیا (پیغام) دے کر بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے (کاپیغام) دے کر بھیجا ہے۔"میں نے آپ سے پوچھا: آپ کے ساتھ اس (دین) پر اور کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ایک آزاد اور ایک غلام۔"۔۔۔کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابو بکر اور بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔میں نے کہا: میں بھی آپ کا متبع ہوں۔فرمایا: " تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے؟لیکن (ان حالات میں) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آگیا ہوں تو میرے پاس آجانا۔"کہا: تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا۔اور (بعد ازاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے میں اپنے گھر ہی میں تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے۔ تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا۔حتیٰ کہ میرے پاس اہل یثرب (مدینہ والوں) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا: یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: لوگ تیزی سے ان (کے دین) کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟آپ نے فرمایا: " ہاں تم وہی ہو ناں جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے؟" کہا: تو میں نے عرض کی: جی ہاں، اور پھر پوچھا: اے اللہ کے نبی! مجھے وہ (سب) بتایئے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بتایئے۔آپ نے فرمایا: "صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اُس) کے دو سینگوں کےدرمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتاہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے) تو پھر نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو ایندھن سے بھر کر بھڑکایا جاتا ہے، پھر جب سایہ آ جائے (سورج ڈھل جائے) تو نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس میں حاضری دی جاتی ہے حتیٰ کہ تم عصر سے فارغ ہو جاؤ، پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج (پوری طرح) غروب ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔"کہا: پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تو وضو؟ مجھے اس کے بارے میں بھی بتایئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو شخص بھی وضو کے لئے پانی اپنے قریب کرتاہے۔پھر کلی کرتاہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتا ہے تو اس سے اس کے چہرے، منہ، اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ کے حکم کےمطابق اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو لازماً اس کے چہرے کےگناہ بھی پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں (کے اوپر) تک دھوتا ہے۔تو لازماً اس کے ہاتھوں کےگناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے بالوں کے اطراف سے زائل ہوجاتے ہیں، پھر وہ ٹخنوں (کے اوپر) تک اپنے دونوں قدم دھوتا ہے۔تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر اگر وہ کھڑا ہوانماز پڑھی اور اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنا دل اللہ کے لئے (ہر قسم کے دوسرے خیالات وتصورات سے) خالی کرلیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جس طرح اس وقت تھا جس دن اس کی ماں نے اسے (ہر قسم کے گناہوں سے پاک) جنا تھا۔"حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (ایک اور) صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عمرو بن عبسہ ! دیکھ لو، تم کیا کہہ رہے ہو۔ ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتنا کچھ عطا کر دیا جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو امامہ! میری عمر بڑھ گئی ہے میری ہڈیاں نرم ہو گئیں ہیں اور میری موت کا وقت بھی قریب آ چکا ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولوں۔اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں۔ اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین۔۔۔ حتیٰ کہ انھوں نے سات بار شمار کیا۔۔۔ بار نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا بلکہ میں نے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے بھی زیادہ بار سنا ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.