صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
48. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ وَبَيَانِ مَعْنَاهُ:
باب: قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1901
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، كَرِوَايَةِ يُونُسَ بِإِسْنَادِهِ.
معمر نے زہری سے یونس کی روایت کی طرح اسی کی سند کے ساتھ روایت کی۔
مصنف نے یہی حدیث اپنے دوسرے استاد سے بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1901 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1901
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے،
سات حروف سے کیا مراد ہے یہ ایک انتہائی معرکۃ الاراء اور طویل بحث ہے جس کو علوم قرآن کے مشکل ترین مباحث میں سے شمار کیا جاتا ہے،
علامہ عبدالعظیم زرقانی نے اپنی کتاب (مناحل العرفان:
ج: 1)
میں اس پر بڑی مفصل بحث کی ہے اور چالیس کے قریب اقوال بتائے ہیں میں ان میں سے صرف اس قول کو نقل کرتا ہوں جسے انھوں نے دلائل کی روشنی میں راجح ترین قول قرار دیا ہے کہ سات حروف سے مراد اختلاف قرآءت کی سات نوعتیں ہیں علامہ ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ امام الفضل رازی رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابو بکر باقلانی اور محقق ابن الجزری نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور سب سے پہلے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اختیار کیا ہے لیکن ان نوعتیوں کی تعیین میں ان حضرات میں تھوڑا فرق ہے لیکن ان سب میں ابو الفضل رازی رحمۃ اللہ علیہ کا استقرا سب سے زیادہ جامع اور مانع ہے اس لیے ہم اسے ہی بیان کرتے ہیں۔
1۔
اسماء کا اختلاف:
یعنی افراد،
تثنیہ،
جمع اور تذکیر و تانیث کا اختلاف۔
2۔
افعال کا اختلاف:
یعنی کسی قرآءت میں ماضی کا صیغہ ہے کسی میں مضارع کا اور کسی میں امر ہے۔
3۔
وجوہ اعراب کا اختلاف:
یعنی مختلف قرآتوں میں اعراب یا حرکات مختلف ہیں۔
4۔
الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف:
یعنی ایک قرآءت میں کوئی لفظ کم ہے اور دوسری میں زیادہ ہے۔
5۔
تقدیم و تاخیر کا اختلاف:
یعنی ایک قرآءت میں کوئی لفظ پہلے ہے اور دوسری میں بعد میں ہے۔
6۔
بدلیت کا اختلاف:
ایک قرآءت میں ایک لفظ ہے دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہے۔
لیکن اسلام کے شروع شروع میں ایک لفظ کی جگہ دوسرے لفظ کا ہونا بکثرت تھا لیکن رفتہ رفتہ جب اہل عرب قرآنی زبان سے پوری طرح مانوس ہوگئے تو یہ قسم دن بدن کم ہوتی گئی یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اپنی زندگی کا جبریل علیہ السلام کے ساتھ آخری دور کیا،
جسےعرضہ اخیرہ کا نام دیا جاتا ہے،
اس میں اس قسم کا اختلاف بہت کم رہ گیا اس لیے موجودہ قرآءت میں اس قسم کا اختلاف بہت کم ہے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں اس اختلاف کی طرف ہی اشارہ ہےکہ جب معاملہ سات حروف تک پہنچ گیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہر ایک شافی کافی ہے تاوقیتکہ آپ عذاب کی آیت کورحمت سے یا رحمت کی آیت کو عذاب سے مخلوط نہ کریں جیسے آپ کہتے ہیں:
(تَعَالِ،
اَقبِل،
هُلُمََّ،
اِذهَب،
اَشرع،
عَجِّل)
یعنی ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا درست تھا لہجوں کا اختلاف یعنی (؟)
ترقیق،
امالہ،
قصر،
مد،
اظہاراور ادغام کے اختلافات۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1901