(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا بقي نصف من شعبان فلا تصوموا ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من هذا الوجه على هذا اللفظ، ومعنى هذا الحديث عند بعض اهل العلم ان يكون الرجل مفطرا، فإذا بقي من شعبان شيء اخذ في الصوم لحال شهر رمضان، وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يشبه قولهم، حيث قال صلى الله عليه وسلم: " لا تقدموا شهر رمضان بصيام إلا ان يوافق ذلك صوما كان يصومه احدكم " وقد دل في هذا الحديث انما الكراهية على من يتعمد الصيام لحال رمضان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ مُفْطِرًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ شَعْبَانَ شَيْءٌ أَخَذَ فِي الصَّوْمِ لِحَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُشْبِهُ قَوْلَهُمْ، حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ " وَقَدْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّمَا الْكَرَاهِيَةُ عَلَى مَنْ يَتَعَمَّدُ الصِّيَامَ لِحَالِ رَمَضَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اور اس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے روزہ نہ رکھ رہا ہو، پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں تو ماہ رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھنا شروع کر دے۔ نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے روزہ نہ رکھو“ اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا روزہ پڑ جائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لیے ہے جو عمداً رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھے۔
وضاحت: ۱؎: شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار رہے، رہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزہ آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 12 (2337)، سنن الدارمی/الصوم 34 (1782)، (تحفة الأشراف: 14051) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/الصیام 5 (1651)، وسنن الدارمی/الصوم 34 (1781) من غیر ہذا الطریق۔»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 738
اردو حاشہ: 1؎: شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزے کے لیے قوّت و توانائی برقرار رہے، رہے نبی اکرم ﷺ اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزے کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 738
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 563
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ نہ رکھو۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 563]
563 فوائد و مسائل: ➊ یہ ممانعت اس لیے ہے کہ شعبان کے آخری دنوں میں روزے رکھ کر ضعف و کمزوری لاحق نہ ہو جائے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے قوت بحال رہے۔ یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری دونوں میں بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔ ➋ امام احمد رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کو منکر کہا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی راوی ضعیف ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے بیان کرنے میں علاء بن عبدالرحمٰن منفرد ہیں اور امام احمد تفرد ثقہ پر بھی منکر کا لفظ بول دیتے ہیں۔ ➌ اس ممانعت سے وہ روزے مستشنٰی ہیں جو عادتاً رکھے جاتے ہیں، مثلاً: جو شخص ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے شعبان کے بعد بھی ان دونوں میں روزہ رکھنا جائز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 563
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2337
´اواخر شعبان کے روزے کی کراہت کا بیان۔` عبدالعزیز بن محمد کہتے ہیں کہ عباد بن کثیر مدینہ آئے تو علاء کی مجلس کی طرف مڑے اور (جا کر) ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کیا پھر کہنے لگے: اے اللہ! یہ شخص اپنے والد سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو“، علاء نے کہا: اے اللہ! میرے والد نے یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مجھ سے بیان کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری، شبل بن علاء، ابو عمیس اور زہیر بن محمد نے علاء سے روایت کیا، نیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2337]
فوائد ومسائل: نصف شعبان کے بعد روزوں کی کراہت ایسے لوگوں کے لیے ہے جو ان دنوں کے روزوں کے عادی نہ ہوں۔ اگر عادت ہو تو رکھ لینے میں حرج نہیں، نیز نہی سے مقصد یہ ہے کہ رمضان میں کمزوری کا احساس نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2337
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1651
´رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1651]
اردو حاشہ: فائده: گزشتہ حدیث سے رمضان سے پہلے بعض روزے رکھنے کا جواز ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان قریب آ جانے پر نفلی روزوں سے اجتناب بہتر ہے۔ تاکہ نفل اور فرض روزوں میں امتیاز ہوجائے۔ اور کوئی شخص اس قدر کمزو ر نہ ہوجائے۔ کہ رمضان کے روزوں میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1651