(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا الحجاج بن ارطاة، عن يحيى بن ابي كثير، عن عروة، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فخرجت فإذا هو بالبقيع، فقال: " اكنت تخافين ان يحيف الله عليك ورسوله؟ " قلت: يا رسول الله، إني ظننت انك اتيت بعض نسائك، فقال: " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لاكثر من عدد شعر غنم كلب ". وفي الباب عن ابي بكر الصديق. قال ابو عيسى: حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال يحيى بن ابي كثير: لم يسمع من عروة، والحجاج بن ارطاة، لم يسمع من يحيى بن ابي كثير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ: " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ۲؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو ہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا: یحییٰ بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں، ۳- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکر کی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگو یہاں صرف روزوں کے سلسلہ میں ہے۔
۲؎: اسی کو برصغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراءت بھی کہتے ہیں، جس کا فارسی ترجمہ ”شب براءت“ ہے۔ اور اس میں ہونے والے اعمال بدعت وخرافات کے قبیل سے ہیں، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اور حدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الاقامة 191 (1389)، (تحفة الأشراف: 1735) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کر دیا ہے کہ حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، اور سند میں دوجگہ انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1389) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (295)، المشكاة (1299) الصفحة (406)، ضعيف الجامع الصغير (1761) //
قال الشيخ زبير على زئي: (739) إسناده ضعيف / جه 1389 حجاج عنعن (تقدم: 527) وللحديث شواھد، كلھا ضعيفة
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 739
اردو حاشہ: 1؎: اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکر کی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگو یہاں صرف روزوں کے سلسلہ میں ہے۔
2؎: اسی کو بر صغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراءت بھی کہتے ہیں، جس کا فارسی ترجمہ ”شبِ براء ت“ ہے۔ اور اس میں ہونے والے اعمال بدعت و خرافات کے قبیل سے ہیں، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اور حدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔
نوٹ: (مؤلف نے سبب بیان کر دیا ہے کہ حجاج بن ارطاۃ ضعیف راوی ہے، اور سند میں دو جگہ انقطاع ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 739
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن ابن ماجہ1389
... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔... [سنن ابن ماجه 1389]
پندرہ شعبان کی رات اور مخصوص عبادت
8: حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا
اسے حجاج بن ارطاۃ نے «عن يحيي بن أبى كثير عن عروة عن عائشة رضي الله عنها» کی سند سے روایت کیا ہے۔ تخریج: سنن الترمذی (1/ 106 ح 739) ابن ماجہ (1389) احمد (6/ 238 ح 26546) ابن ابی شیبہ (المصنف: 10/ 438 ح 29849) عبد بن حمید (1507) البیہقی فی شعب الایمان (3824) والعلل المتناہیہ (2/ 66 ح 915)
امام ترمذی فرماتے ہیں: ”میں نے بخاری کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اسے یحییٰ (بن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا اور نہ حجاج بن ارطاۃ نے اسے یحییٰ (بن ابی کثیر) سے سنا ہے۔“ [الترمذي: 739]
حجاج بن ارطاۃ ضعیف عند الجمہور اور مدلس راوی ہے، یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس ہیں۔ نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔
اس روایت کے تین ضعیف شواہد بھی ہیں: اول: العلل المتناہیہ (2/ 67، 68 ح 917)
اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے وہ منکر روایات بیان کرتا تھا۔ دیکھئے [لسان الميزان 3/ 102] دوم: العلل المتناہیہ (2/ 68، 69 ح 918)
اس میں سعید بن عبد الکریم الواسطی کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے۔ دیکھئے [لسان الميزان 3/ 36] سوم: العلل المتناہیہ (2/ 69 ح 919)
اس میں عطاء بن عجلان کذاب و متروک ہے۔ دیکھئے: [الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث ص 289 تقريب التهذيب 4594]
خلاصہ یہ کہ یہ تینوں شواہد بھی مردود ہیں۔
مفصل مضمون سلسلہ احادیث صحیحہ حدیث نمبر 1144 ترقیم البانی پر موجود ہے۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 1 صفحہ 291 تا 304)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 291