(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، وروي عن ابن المبارك، انه قال: في هذا الحديث، قال: هو جائز في كلام العرب إذا صام اكثر الشهر ان يقال صام الشهر كله، ويقال: قام فلان ليله اجمع ولعله تعشى واشتغل ببعض امره، كان ابن المبارك قد راى كلا الحديثين متفقين، يقول: إنما معنى هذا الحديث انه كان يصوم اكثر الشهر. قال ابو عيسى: وقد روى سالم ابو النضر، وغير واحد، عن ابي سلمة، عن عائشة نحو رواية محمد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ، وَيُقَالُ: قَامَ فُلَانٌ لَيْلَهُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّهُ تَعَشَّى وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِهِ، كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّهْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
اس سند سے بھی اسے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام روزہ رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات نماز پڑھی حالانکہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اور بعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔ گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے تھے، ۲- سالم ابوالنضر اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمد بن عمرو کی طرح روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 17756) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 52 (1969)، وصحیح مسلم/الصیام 34 (1156)، وسنن النسائی/الصیام 34 (2179، 2180)، و35 (2181-2187)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 30 (1710)، وط/الصیام 22 (56)، و مسند احمد (6/39، 58، 84، 107، 128، 143، 103، 165، 233، 242، 249، 268)، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 737
اردو حاشہ: 1؎: شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 737