(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: كنت انا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة ابيها، فقالت: يا رسول الله إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، قال: " اقضيا يوما آخر مكانه ". قال ابو عيسى: وروى صالح بن ابي الاخضر، ومحمد بن ابي حفصة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة مثل هذا، ورواه مالك بن انس، ومعمر، وعبيد الله بن عمر، وزياد بن سعد، وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، عن عائشة مرسلا، ولم يذكروا فيه عن عروة، وهذا اصح لانه روي عن ابن جريج، قال: سالت الزهري، قلت له: احدثك عروة، عن عائشة، قال: لم اسمع من عروة في هذا شيئا، ولكني سمعت في خلافة سليمان بن عبد الملك من ناس، عن بعض من سال عائشة عن هذا الحديث. حدثنا بذلك94 علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا روح بن عبادة، عن ابن جريج فذكر الحديث. وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، فراوا عليه القضاء إذا افطر، وهو قول مالك بن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ، وَكَانَتِ ابْنَةَ أَبِيهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، قَالَ: " اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَمَعْمَرٌ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عُرْوَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، قُلْتُ لَهُ: أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي هَذَا شَيْئًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلَافَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ، عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ94 عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَأَوْا عَلَيْهِ الْقَضَاءَ إِذَا أَفْطَرَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آ گیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھا لیا، آپ نے فرمایا: ”تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کر لینا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اور عروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی نفل روزہ توڑ دے تو اس پر قضاء لازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔
وضاحت: ۱؎: لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے «وإن كان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي»”اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضاء کرو اور چاہو تو نہ کرو“ اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 16419) (ضعیف) (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (423) // عندنا برقم (531 / 2457) //
قال الشيخ زبير على زئي: (735) إسناده ضعيف جعفر صدوق يھم فى حديث الزھري (تق:932) والزھري عنعن (تقدم: 440) وللحديث شواھد ضعيفة عند أبى داود (2457) وغيره وحديث ابن جريج أيضاً ضعيف، علته جھالة شيوخ الزھري
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 735
اردو حاشہ: 1؎: لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے ((وَإِنْ كَانَ تَطَوُّعاً فَإِنْ شِئْتِ فَأقْضِي وَإِنْ شِئْتِ فَلَا تَقْضِي))”اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضا کرو اور چاہو تو نہ کرو“ اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
نوٹ: (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 735
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2457
´توڑے ہوئے نفلی روزے کی قضاء کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کچھ کھانا ہدیے میں آیا، ہم دونوں روزے سے تھیں، ہم نے روزہ توڑ دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہم نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ہدیہ آیا تھا ہمیں اس کے کھانے کی خواہش ہوئی تو روزہ توڑ دیا (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ توڑ دیا تو کوئی بات نہیں، دوسرے دن اس کے بدلے رکھ لینا۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2457]
فوائد ومسائل: نفلی روزے کی قضا واجب نہیں ہے اگر رکھے تو مستحب ہے۔ تاہم اس طرح کہ عمل کو اپنی عادت نہیں بنانا چاہیے۔ مذکورہ روایت ضعیف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2457