(مرفوع) حدثنا الوليد بن عمرو بن السكين ، حدثنا ابو همام ، حدثنا موسى بن عبيدة ، حدثنا مصعب بن محمد ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عائشة ، قالت: فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم بابا بينه وبين الناس، او كشف سترا، فإذا الناس يصلون وراء ابي بكر، فحمد الله على ما راى من حسن حالهم، رجاء ان يخلفه الله فيهم بالذي رآهم، فقال:" يا ايها الناس ايما احد من الناس، او من المؤمنين اصيب بمصيبة، فليتعز بمصيبته بي عن المصيبة التي تصيبه بغيري، فإن احدا من امتي لن يصاب بمصيبة بعدي اشد عليه من مصيبتي". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السُّكَيْنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَابًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، أَوْ كَشَفَ سِتْرًا، فَإِذَا النَّاسُ يُصَلُّونَ وَرَاءَ أَبِي بَكْرٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا رَأَى مِنْ حُسْنِ حَالِهِمْ، رَجَاءَ أَنْ يَخْلُفَهُ اللَّهُ فِيهِمْ بِالَّذِي رَآهُمْ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّمَا أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، أَوْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أُصِيبَ بِمُصِيبَةٍ، فَلْيَتَعَزَّ بِمُصِيبَتِهِ بِي عَنِ الْمُصِيبَةِ الَّتِي تُصِيبُهُ بِغَيْرِي، فَإِنَّ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِي لَنْ يُصَابَ بِمُصِيبَةٍ بَعْدِي أَشَدَّ عَلَيْهِ مِنْ مُصِيبَتِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا، یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اور امید کی کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ان کے درمیان آپ کے انتقال کے بعد بھی باقی رکھے گا، اور فرمایا: ”اے لوگو! لوگوں میں سے یا مومنوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کر کے صبر کرے، اس لیے کہ میری امت میں سے کسی کو میرے بعد ایسی مصیبت نہ ہو گی جو میری وفات کی مصیبت سے اس پر زیادہ سخت ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ مومن وہی ہے جس کو نبی کریم ﷺ کی محبت اولاد اور والدین اور سارے رشتہ داروں سے زیادہ ہو، پس جب وہ نبی کریم ﷺ کی وفات کو یاد کرے گا تو ہر طرح کے رشتہ داروں اور دوست و احباب کی موت اس کے سامنے بے حقیقت ہو گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17774، ومصباح الزجاجة: 578) (صحیح)» (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1106)
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) opened a door that was between him and the people or drew back a curtain and he saw the people praying behind Abu Bakr. He praised Allah for what he saw of their good situation and hoped that Allah succeed him by what he saw in them.* He said: ‘O people, whoever among the people or among the believers is stricken with a calamity, then let him console himself with the loss of me, for no one among my nation will be stricken with any calamity worse than my loss.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف موسي بن عبيدة: ضعيف ولحديثه شواھدضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1599
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ کو اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں بھی امت کا خیال تھا۔ چنانچہ جب انھیں نیکی پر قائم دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔
(2) جب مصیبت پر صبر مشکل محسوس ہورہا ہو تو سوچے کہ اگر میرا عزیز یا بزرگ فوت ہوگیا ہے۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں جو بھی آیا اسے جانا ہے۔ جب محمد رسول اللہ ﷺجیسی عظیم شخصیت کی بھی وفات ہوگئی۔ تو پھر اور کون ہے۔ جو ہمیشہ زندہ رہے۔
(3) حدیث کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مصیبت آئے تو مسلمان رسول اللہ ﷺ پر آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کو یاد کرے اور نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھ کر صبرکرے۔ جس طرح نبی کریمﷺ نے ہر مشکل اور مصیبت کے موقع پر صبرکیا۔ اور مصائب پر جزع فزع کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1599