مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1596
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(و)
صبر جو شرعاً مطلوب ہے۔
یہ ہے کہ جب مصیبت آئے یا غم پہنچے۔
اس وقت اپنے آپ کو غلط حرکات واقوال سے بچائے۔
کیونکہ جذبات غم کی شدت کے موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھنا اور جائز وناجائز کے فرق کا خیال کرنا بہت مشکل ہے۔
جو شخص اس موقعے پر احکام شریعت کو ملحوظ رکھتا ہے۔
اصل صبر اسی کا ہے۔
جس پر اسے وہ تمام انعامات خداوندی حاصل ہوں گے۔
جن کا قرآن وحدیث میں وعدہ کیاگیا ہے۔
بعد میں جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے۔
خود بخود صبر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ صبر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر کسی کی تعریف کی جائے یا اسے ثواب کی اُمید ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1596
ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1283
´عوتوں کے لیے قبروں کی زیارت`
«. . . قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1283]
فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے «باَبُ زِيَارَةِ الْقُبُورِ» (قبروں کی زیارت کا بیان) میں بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ عورت قبرستان جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور صبر کرنے کا حکم تو دیا، لیکن قبرستان میں آنے سے منع نہیں فرمایا۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر ان کے لیے دعا کریں، موت کو یاد کریں اور آخرت کی فکر کو تازہ کریں، وہاں بےصبری کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 21
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1870
´مصیبت آنے پر صبر کرنے اور اللہ سے ثواب چاہنے کے حکم کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو صدمہ (غم) پہنچتے ہی ہو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1870]
1870۔ اردو حاشیہ: مقصد یہ ہے کہ سوگ اور جزع فزع ہمیشہ تو نہیں رہ سکتے، آخر کار وہ ختم ہ ہی جائیں گے، مگر اسے صبر نہیں کہتے، صبر تو یہ ہے کہ انسان مصیبت کے ابتدائی وقت میں اپنے آپ کو شرعی احکام اور انسانی وقار کا پابند رکھے، اور یہی مشکل کام ہے، ثواب بھی اسی صبر کا ہے، رو پیٹ کر صبر کیا تو وہ کیا صبر ہے؟ بالآخر تو صبر کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن یہ شریعت والا صب نہیں ہے، یہ تو مجورب یہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اجر و ثواب صرف اسی صبر میں ہے جو آزمائش اور غم کے وقت کیا جائے، نہ کہ اس کے بعد والے صبر پر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1870
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3124
´صبر درحقیقت وہی ہے جو صدمہ آتے ہی کیا جائے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎“، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3124]
فوائد ومسائل:
1۔
رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے بعد جب انسان ویسے ہی تھک ہار جاتا ہے۔
تو اسے صبر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صبر تو یہ ہے کہ مصیبت آئے تو اس پر (إنا للہ وانا الیه راجعون) کے علاوہ کچھ نہ کہا جائے۔
اللہ کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا مظاہرہ کیا جائے۔
اور جزع فزع نوحہ وماتم اور اللہ کا شکوہ نہ کیا جائے۔
2۔
شدت جزبات اور آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اس عورت سے رسول اللہ ﷺکے حق میں جو تقصیر ہوئی آپ نے اسے معاف فرما دیا۔
3۔
جوشخص اپنے نابالغ بچوں کی وفات پر صبرورضا کا اظہار کرے۔
اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجایئں تو اللہ تعالیٰ اس کو ان بچوں پر اپنی رحمت کی برکت سے جنت میں داخل فرمائےگا۔
(صحیح البخاری۔
الجنائز۔
باب فصل من مات لہ ولد فاحتسب حدیث1248) اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: جس مسلما ن کے تین بچے فوت ہوجایئں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1251) علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے۔
یعنی فوت ہوجایئں۔
تو وہ اس کےلئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جایئں گے۔
تو ایک عورت نے کہا۔
اور دو بچوں کا کیا حکم ہے۔
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو کا بھی یہی حکم ہے (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1249)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3124
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 987
´صبر وہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 987]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بے صبری کا مظاہرہ،
اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے،
بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 987
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2139
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”صبر وہی ہے جو پہلی چوٹ کے وقت کیا جائے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2139]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان پر جب مصیبت ٹوٹتی ہے یا وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت اپنا حوصلہ قائم رکھنا اور صبر کرنا مشکل ہوتا ہے۔
آہستہ آہستہ غم خود بخود غلط ہوجاتا ہے اور پریشانی کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے۔
اس لیے بعد میں صبر کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے فرمایا اصل صبر جو اجرو ثواب اور فضیلت کا سبب ہے وہ تو وہی ہے جو پہلی چوٹ اور پہلے صدمہ کے وقت کیا جائے جزع و فزع کے بعد صبر لاحاصل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2139
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1283
1283. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کا ایک عورت کے پاس سے گزر ہوا جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ وہ آپ کو پہچان نہ سکی اور کہنے لگی: مجھ سے دور رہو، کیونکہ تمھیں مجھ جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو نبی کریم ﷺ تھے تو وہ (معذرت کے لیے) نبی کریم ﷺ کے درِدولت پر حاضر ہوئی۔ اس نے آپ کے دروازے پر کوئی دربان نہ دیکھا، حاضر ہوکر عرض کرنے لگی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ (مجھے معاف فرما دیجئے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1283]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ”میں نے تمہیں قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا‘ لیکن اب کرسکتے ہو۔
“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ممانعت تھی اور پھر بعد میں اس کی اجازت مل گئی۔
دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ قبروں پر جایا کرو کہ اس سے موت یاد آتی ہے، یعنی اس سے آدمی کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ”اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو قبروں کی بہت زیارت کرتی ہیں۔
“ اس کی شرح میں قرطبی نے کہا کہ یہ لعنت ان عورتوں پر ہے جو رات دن قبروں ہی میں پھرتی رہیں اور خاوندوں کے کاموں کا خیال نہ رکھیں، نہ یہ کہ مطلق زیارت عورتوں کو منع ہے۔
کیونکہ موت کو یاد کرنے میں مرد عورت دونوں برابر ہیں۔
لیکن عورتیں اگر قبرستان میں جا کر جزع فزع کریں اور خلاف شرع امور کی مرتکب ہوں تو پھر ان کے لیے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہو گی۔
علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں:
أن زیارة القبور مکروہ للنساء بل حرام في هذا الزمان ولا سیما نساء مصر۔
یعنی حالات موجودہ میں عورتوں کے لیے زیارت قبور مکروہ بلکہ حرام ہے خاص طور پر مصری عورتوں کے لیے۔
یہ علامہ نے اپنے حالات کے مطابق کہا ہے ورنہ آج کل ہر جگہ عورتوں کا یہی حال ہے۔
مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے صاف نہیں بیان کیا کہ قبروں کی زیارت جائز ہے یا نہیں۔
کیونکہ اس میں اختلاف ہے اور جن حدیثوں میں زیارت کی اجازت آئی ہے وہ ان کی شرط پر نہ تھیں، مسلم نے مرفوعاً نکالا ”میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد پیدا ہوتی ہے۔
“ (وحیدی)
حضرت امام بخاری ؒ نے جو حدیث یہاں نقل فرمائی ہے اس سے قبروں کی زیارت یوں ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو وہاں رونے سے منع فرمایا۔
مطلق زیارت سے آپ ﷺ نے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔
اسی سے قبروں کی زیارت ثابت ہوئی۔
مگر آج کل اکثر لوگ قبرستان میں جا کر مردوں کا وسیلہ تلاش کرتے اور بزرگوں سے حاجت طلب کرتے ہیں۔
ان کی قبروں پر چادر چڑھاتے پھول ڈالتے ہیں وہاں جھاڑو بتی کا انتظام کرتے اورفرش فروش بچھاتے ہیں۔
شریعت میں یہ جملہ امور ناجائز ہیں۔
بلکہ ایسی زیارات قعطاً حرام ہیں جن سے اللہ کی حدود کو توڑا جائے اور وہاں خلاف شریعت کام کئے جائیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1283
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7154
7154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے کہا: کیا تو فلاں عورت کو جانتی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،تو انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک دفعہ اس کے پاس گزرے تو وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ اس نے جواب دیا: آپ میرے پاس سے چلے جائیں۔آپ نے مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی،چنانچہ آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے اور تشریف لے گئے اس دوران میں وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو نہیں پہچانا۔ اس شخص نے کہا: وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ پھر وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہ تھا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم،میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔نبی ﷺ نے فرمایا: ”صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7154]
حدیث حاشیہ:
روایت میں آپ کے ہاں دربان نہ ہونا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7154
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1302
1302. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”صبر وہی ہے جو ابتدائے صدمہ میں ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1302]
حدیث حاشیہ:
ترجمتہ الباب میں حضرت عمر ؓ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔
حضرت عمر ؓ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر ؓ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے ﴿أُولَئِكَ هُمُ المُهتدونَ﴾ سے تعبیر فرمایا۔
پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔
آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔
پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔
اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1252
1252. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جوقبر کے پاس رورہی تھی، آپ نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈراور صبر سے کام لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1252]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث انتہائی مختصر ہے، آگے تفصیل کے ساتھ آ رہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا قصد یہی تھا کہ اس پر دو مصیبتیں جمع نہ ہوں:
ایک تو اس کا بچہ فوت ہو گیا ہے اور دوسری مصیبت یہ کہ بے صبری سے اس کا ثواب بھی جاتا رہے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کو غلط کام سے روک سکتا ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو قبر پر جزع فزع سے منع کیا اور صبر کی تلقین فرمائی۔
(2)
امام بخاری ؒ کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہ تھی۔
امر بالعمروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی بھی آدمی ادا کر سکتا ہے، نیز وعظ و نصیحت کے لیے عورتوں سے مخاطب ہونا جائز ہے، خواہ وہ بوڑھی ہوں یا جوان۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے پہلی احادیث میں عورتوں کو ثواب کی رغبت کے لیے مخاطب کیا تھا کہ مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور اس حدیث میں برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے خطاب کیا ہے کہ بے صبری سے تقویٰ جاتا رہتا ہے۔
(فتح الباري: 161/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1252
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1283
1283. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کا ایک عورت کے پاس سے گزر ہوا جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ وہ آپ کو پہچان نہ سکی اور کہنے لگی: مجھ سے دور رہو، کیونکہ تمھیں مجھ جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو نبی کریم ﷺ تھے تو وہ (معذرت کے لیے) نبی کریم ﷺ کے درِدولت پر حاضر ہوئی۔ اس نے آپ کے دروازے پر کوئی دربان نہ دیکھا، حاضر ہوکر عرض کرنے لگی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ (مجھے معاف فرما دیجئے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1283]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے زیارت قبور کو ثابت کیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو قبر کے پاس بیٹھنے سے نہیں روکا اور آپ کا کسی کام کو برقرار رکھنا قابل حجت ہے۔
علاوہ ازیں متعدد احادیث میں صراحت کے ساتھ قبروں کی زیارت کرنا ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو۔
“ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2260 (977)
ایک روایت میں ہے:
”مجھے اپنی والدہ کی قبر کے متعلق زیارت کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔
“ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2259 (976)
مستدرک حاکم کی روایت میں ہے:
”قبروں کی زیارت کرنے سے دل نرم اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، اس لیے قبرستان میں فحش یا باطل کلام نہ کرو۔
“ (المستدرك للحاکم: 376/1)
ان احادیث سے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے زیارت قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 190/3) (2)
خواتین کے لیے قبروں کی زیارت کے متعلق حسب ذیل دلائل ہیں:
٭ حضرت عائشہ ؓ ایک دن اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کی قبر کی زیارت کر کے واپس آئیں تو حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا:
اللہ کے رسول ﷺ نے تو قبروں کی زیارت سے منع کیا ہے۔
انہوں نے جواب دیا:
ہاں، لیکن پھر اس کی اجازت دے دی تھی۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 78/4)
٭ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
اے اللہ کے رسول! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کون سی دعا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا:
”تم یہ دعا پڑھو:
(السلام علی أهل الديار) (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2256 (974)
لیکن خواتین کے لیے ٹولیوں کی شکل میں اور کثرت کے ساتھ زیارت کرنا جائز نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت زیادہ قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔
(سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1576)
جو عورتیں بناؤ سنگھار کر کے نوحہ کرنے کے لیے قبرستان جاتی ہیں، ان کے لیے کسی صورت زیارت قبور جائز نہیں۔
الغرض عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ بار بار نہ جائیں، اجتماعی طور پر اس کا اہتمام نہ کریں اور وہاں جا کر خلاف شرع کاموں کا ارتکاب نہ کریں۔
والله أعلم۔
(3)
امام بخاری ؒ نے جنازے سے متعلق دیگر مسائل و احکام سے زیارت قبور کو مقدم کیا ہے، کیونکہ اس سے انسان کا بار بار واسطہ پڑتا ہے، اس لیے امام بخاری نے اس عنوان کو دیگر احکام کے لیے اصل اور بنیاد قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 192/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1283
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1302
1302. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”صبر وہی ہے جو ابتدائے صدمہ میں ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1302]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن کریم میں صبر کرنے والوں کو جو بشارت دی گئی ہے اس سے وہی صبر کرنے والے مراد ہیں جو ابتدائے صدمہ میں صبرواستقلال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے صبر کے متعلق آیت کریمہ پیش کی ہے کہ تم صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ کی مدد طلب کرو۔
(سورة البقرة: 153/2)
شاید امام بخاری ؒ کا مقصود ایک واقعے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت ابن عباس ؒ کو دوران سفر میں ان کے بھائی قثم بن عباس کے فوت ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
پڑھا، پھر راستے سے ہٹ کر نماز پڑھنے لگے، دو رکعت پڑھ کر دیر تک بیٹھے رہے۔
جب اٹھے تو آیت ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ﴾ پڑھنے لگے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے میں نماز کا بہت تعلق ہے۔
(فتح الباري: 220/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7154
7154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے کہا: کیا تو فلاں عورت کو جانتی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،تو انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک دفعہ اس کے پاس گزرے تو وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ اس نے جواب دیا: آپ میرے پاس سے چلے جائیں۔آپ نے مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی،چنانچہ آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے اور تشریف لے گئے اس دوران میں وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو نہیں پہچانا۔ اس شخص نے کہا: وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ پھر وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہ تھا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم،میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔نبی ﷺ نے فرمایا: ”صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7154]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کوئی دربان نہیں رکھا تھا جو لوگوں کی ضروریات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا بلکہ لوگ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے تھے لیکن جب خوارج کی طرف سے خفیہ حملوں کا آغاز ہوااور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی لگادی۔
اگرچہ انھوں نے یہ کام احتیاط کے پیش نظر کیا لیکن اس کے باوجود حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا:
\"جو حاکم وقت ضرورت مندوں اور کمزور بندوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کرے گا۔
تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت و ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بندے کردےگا۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔
\"یہ حدیث سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دروازے پر ایک خاص آدمی مقرر کر دیا جو لوگوں کی حاجات و ضروریات معلوم کرکے ان تک پہنچاتا تھا۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث: 1332)
2۔
بہر حال موجودہ حالات کے پیش نظر کسی بااخلاق سمجھ دار اور تجربہ کار شخص کو دربان رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7154