وحدثني، عن مالك، انه سال ابن شهاب عن الرجل يعتكف هل يدخل لحاجته تحت سقف؟ فقال:" نعم، لا باس بذلك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنْ الرَّجُلِ يَعْتَكِفُ هَلْ يَدْخُلُ لِحَاجَتِهِ تَحْتَ سَقْفٍ؟ فَقَالَ:" نَعَمْ، لَا بَأْسَ بِذَلِكَ"
امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا ابن شہاب سے کہ معتکف کو پَٹے ہوئے مکان میں حاجتِ ضروری کو جانا درست ہے؟ بولے: ہاں، درست ہے، کچھ حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 641، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 3»
قال مالك: الامر عندنا الذي لا اختلاف فيه، انه لا يكره الاعتكاف في كل مسجد يجمع فيه، ولا اراه كره الاعتكاف في المساجد التي لا يجمع فيها، إلا كراهية ان يخرج المعتكف من مسجده الذي اعتكف فيه إلى الجمعة او يدعها، فإن كان مسجدا لا يجمع فيه الجمعة ولا يجب على صاحبه إتيان الجمعة في مسجد سواه، فإني لا ارى باسا بالاعتكاف فيه لان الله تبارك وتعالى قال: وانتم عاكفون في المساجد سورة البقرة آية 187 فعم الله المساجد كلها ولم يخص شيئا منها قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ الْاعْتِكَافُ فِي كُلِّ مَسْجِدٍ يُجَمَّعُ فِيهِ، وَلَا أُرَاهُ كُرِهَ الْاعْتِكَافُ فِي الْمَسَاجِدِ الَّتِي لَا يُجَمَّعُ فِيهَا، إِلَّا كَرَاهِيَةَ أَنْ يَخْرُجَ الْمُعْتَكِفُ مِنْ مَسْجِدِهِ الَّذِي اعْتَكَفَ فِيهِ إِلَى الْجُمُعَةِ أَوْ يَدَعَهَا، فَإِنْ كَانَ مَسْجِدًا لَا يُجَمَّعُ فِيهِ الْجُمُعَةُ وَلَا يَجِبُ عَلَى صَاحِبِهِ إِتْيَانُ الْجُمُعَةِ فِي مَسْجِدٍ سِوَاهُ، فَإِنِّي لَا أَرَى بَأْسًا بِالْاعْتِكَافِ فِيهِ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ سورة البقرة آية 187 فَعَمَّ اللَّهُ الْمَسَاجِدَ كُلَّهَا وَلَمْ يَخُصَّ شَيْئًا مِنْهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک حکم یہ ہے، جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ اعتکاف اس مسجد میں مکروہ نہیں ہے جس میں جمعہ ہوتا ہے، اور جن میں جمعہ نہیں ہوتا اُن میں اعتکاف اسی وجہ سے مکروہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے لیے نکلنا پڑے گا یا جمعہ ترک کرنا ہوگا، سوا اگر کوئی شخص ایسا ہو جس پر جمعہ فرض نہیں ہے اور وہ اعتکاف کرے اس مسجد میں جس میں جمعہ نہیں ہوتا کچھ قباحت نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا «﴿وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ [البقرة: 187] » اور کسی مسجد کو خاص نہیں کیا۔
قال مالك: فمن هنالك جاز له ان يعتكف في المساجد التي لا يجمع فيها الجمعة، إذا كان لا يجب عليه ان يخرج منه إلى المسجد الذي تجمع فيه الجمعة قَالَ مَالِك: فَمِنْ هُنَالِكَ جَازَ لَهُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِي الْمَسَاجِدِ الَّتِي لَا يُجَمَّعُ فِيهَا الْجُمُعَةُ، إِذَا كَانَ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهُ إِلَى الْمَسْجِدِ الَّذِي تُجَمَّعُ فِيهِ الْجُمُعَةُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی وجہ سے جس پر جمعہ واجب نہیں ہے اس کو اعتکاف کرنا اس مسجد میں جہاں جمعہ نہیں ہوتا درست ہے۔
قال مالك: ولا يبيت المعتكف إلا في المسجد الذي اعتكف فيه، إلا ان يكون خباؤه في رحبة من رحاب المسجد قَالَ مَالِك: وَلَا يَبِيتُ الْمُعْتَكِفُ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي اعْتَكَفَ فِيهِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ خِبَاؤُهُ فِي رَحَبَةٍ مِنْ رِحَابِ الْمَسْجِدِ
کہا مالک رحمہ اللہ نے: معتکف رات کو نہ رہے مگر مسجد میں جہاں اس نے اعتکاف کیا ہے، البتہ اگر اس کا خیمہ مسجد کے صحن میں ہو تو وہاں رہنا درست ہے۔
ولم اسمع ان المعتكف يضرب بناء يبيت فيه، إلا في المسجد او في رحبة من رحاب المسجد، ومما يدل على انه لا يبيت إلا في المسجد، قول عائشة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا اعتكف لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ الْمُعْتَكِفَ يَضْرِبُ بِنَاءً يَبِيتُ فِيهِ، إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ أَوْ فِي رَحَبَةٍ مِنْ رِحَابِ الْمَسْجِدِ، وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ لَا يَبِيتُ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ، قَوْلُ عَائِشَةَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا اعْتَكَفَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے یہ نہیں سنا کہ معتکف خیمہ کھڑا کرے رات کے رہنے کے لیے مسجد میں یا اس کے صحن میں، اور اس پر دلالت کرتا ہے قول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو گھر میں نہ جاتے مگر حاجتِ ضروری کے واسطے۔
ولا يعتكف فوق ظهر المسجد، ولا في المنار" يعني الصومعة وَلَا يَعْتَكِفُ فَوْقَ ظَهْرِ الْمَسْجِدِ، وَلَا فِي الْمَنَارِ" يَعْنِي الصَّوْمَعَةَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مسجد کی چھت یا مینار پر اعتکاف کرنا درست نہیں ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص کو اعتکاف کرنا کسی جگہ منظور ہو تو قبل غروبِ آفتاب کے وہاں داخل ہو جائے تاکہ جس رات اس کو اعتکاف کرنا منظور ہے وہ پوری ہاتھ آئے۔
وقال مالك: يدخل المعتكف المكان الذي يريد ان يعتكف فيه قبل غروب الشمس من الليلة التي يريد ان يعتكف فيها، حتى يستقبل باعتكافه اول الليلة التي يريد ان يعتكف فيها وَقَالَ مَالِك: يَدْخُلُ الْمُعْتَكِفُ الْمَكَانَ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ مِنَ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهَا، حَتَّى يَسْتَقْبِلَ بِاعْتِكَافِهِ أَوَّلَ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معتکف کو سوا اپنے اعتکاف کے دوسرا شغل مثل تجارت وغیرہ کے درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کام کی ضرورت ہو تو اپنے لوگوں سے کہہ سکتا ہے، مثلاً کوئی بات متعلق ہو اپنے پیشہ یا تجارت کے یا خانگی کوئی کام ہو یا کوئی چیز بیچنا ہو یا کچھ کام، تو دوسروں سے کہہ سکتا ہے اس طرح پر کہ دل اس کا اس میں مشغول نہ ہو جائے، اور وہ کام خفیف ہو۔
والمعتكف مشتغل باعتكافه لا يعرض لغيره مما يشتغل به من التجارات او غيرها، ولا باس بان يامر المعتكف ببعض حاجته بضيعته ومصلحة اهله، وان يامر ببيع ماله او بشيء لا يشغله في نفسه، فلا باس بذلك إذا كان خفيفا ان يامر بذلك من يكفيه إياه وَالْمُعْتَكِفُ مُشْتَغِلٌ بِاعْتِكَافِهِ لَا يَعْرِضُ لِغَيْرِهِ مِمَّا يَشْتَغِلُ بِهِ مِنَ التِّجَارَاتِ أَوْ غَيْرِهَا، وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْمُرَ الْمُعْتَكِفُ بِبَعْضِ حَاجَتِهِ بِضَيْعَتِهِ وَمَصْلَحَةِ أَهْلِهِ، وَأَنْ يَأْمُرَ بِبَيْعِ مَالِهِ أَوْ بِشَيْءٍ لَا يَشْغَلُهُ فِي نَفْسِهِ، فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا كَانَ خَفِيفًا أَنْ يَأْمُرَ بِذَلِكَ مَنْ يَكْفِيهِ إِيَّاهُ
کہا مالک رحمہ اللہ نے: میں نے کسی اہلِ علم سے نہیں سنا جو اعتکاف میں کسی شرط کا لگاتا ہو، بلکہ اعتکاف بھی ایک عمل ہے اعمالِ خیر میں سے، مثل نماز اور روزہ اور حج کے۔ فرائض ہوں یا نوافل جو شخص کوئی عملِ خیر کرے تو چاہیے کہ طریقہ سنّت کا اختیار کرے، اور یہ بات درست نہیں ہے کہ کوئی طریقہ نیا نکالے جو اگلے مسلمانوں میں نہ تھا، نہ کوئی شرط ایجاد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا اور مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کو دیکھ کر اس کا طریقہ پہچان لیا۔
قال مالك: لم اسمع احدا من اهل العلم يذكر في الاعتكاف شرطا، وإنما الاعتكاف عمل من الاعمال، مثل الصلاة والصيام والحج وما اشبه ذلك من الاعمال ما كان من ذلك فريضة او نافلة، فمن دخل في شيء من ذلك فإنما يعمل بما مضى من السنة، وليس له ان يحدث في ذلك غير ما مضى عليه المسلمون، لا من شرط يشترطه ولا يبتدعه، وقد اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم وعرف المسلمون سنة الاعتكاف قَالَ مَالِك: لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَذْكُرُ فِي الْاعْتِكَافِ شَرْطًا، وَإِنَّمَا الْاعْتِكَافُ عَمَلٌ مِنَ الْأَعْمَالِ، مِثْلُ الصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ وَالْحَجِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ فَرِيضَةً أَوْ نَافِلَةً، فَمَنْ دَخَلَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَعْمَلُ بِمَا مَضَى مِنَ السُّنَّةِ، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْدِثَ فِي ذَلِكَ غَيْرَ مَا مَضَى عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ، لَا مِنْ شَرْطٍ يَشْتَرِطُهُ وَلَا يَبْتَدِعُهُ، وَقَدِ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ سُنَّةَ الْاعْتِكَافِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اعتکاف اور جوار ایک ہیں، اسی طرح اعتکاف صحرائی اور شہری آدمی کا یکساں ہے تمام احکام میں۔