حدثني زياد، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اراد ان يعتكف، فلما انصرف إلى المكان الذي اراد ان يعتكف فيه، وجد اخبية خباء عائشة، وخباء حفصة، وخباء زينب فلما رآها سال عنها، فقيل له: هذا خباء عائشة، وحفصة، وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آلبر تقولون بهن"، ثم انصرف فلم يعتكف حتى اعتكف عشرا من شوال حَدَّثَنِي زِيَاد، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ، وَجَدَ أَخْبِيَةً خِبَاءَ عَائِشَةَ، وَخِبَاءَ حَفْصَةَ، وَخِبَاءَ زَيْنَبَ فَلَمَّا رَآهَا سَأَلَ عَنْهَا، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا خِبَاءُ عَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَزَيْنَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آلْبِرَّ تَقُولُونَ بِهِنَّ"، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا اعتکاف کا۔ جب آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ میں جہاں اعتکاف کرنا چاہتے تھے، پائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے۔ ایک خیمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا، اور ایک خیمہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا، اور ایک خیمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا۔ تو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کن کے خیمے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کیا تم نیکی کا گمان کرتے ہو ان عورتوں کے ساتھ۔“ پھر لوٹ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اعتکاف نہ کیا اور شوال کے دس روزہ میں اعتکاف کیا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2033، 2034، 2041، 2045، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1173، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2217، 2224، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3666، 3667، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 710، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 790، 3331، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2464، والترمذي فى «جامعه» برقم: 791، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1771، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8660، 8692، 8693، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25183، 26537، والحميدي فى «مسنده» برقم: 196، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4506، 4912، والبزار فى «مسنده» برقم:، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8031، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9740، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4709، شركة الحروف نمبر: 645، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 7»
وسئل مالك، عن رجل دخل المسجد لعكوف في العشر الاواخر من رمضان فاقام يوما او يومين، ثم مرض فخرج من المسجد ايجب عليه ان يعتكف ما بقي من العشر إذا صح، ام لا يجب ذلك عليه، وفي اي شهر يعتكف إن وجب عليه ذلك، فقال مالك: يقضي ما وجب عليه من عكوف إذا صح في رمضان او غيره وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ لِعُكُوفٍ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَأَقَامَ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ مَرِضَ فَخَرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ أَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَعْتَكِفَ مَا بَقِيَ مِنَ الْعَشْرِ إِذَا صَحَّ، أَمْ لَا يَجِبُ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَفِي أَيِّ شَهْرٍ يَعْتَكِفُ إِنْ وَجَبَ عَلَيْهِ ذَلِكَ، فَقَالَ مَالِك: يَقْضِي مَا وَجَبَ عَلَيْهِ مِنْ عُكُوفٍ إِذَا صَحَّ فِي رَمَضَانَ أَوْ غَيْرِهِ
امام مالک رحمہ اللہ سے کہا گیا: جو شخص رمضان کے اخیر دہے میں اعتکاف شروع کرے، پھر ایک یا دو دن کے بعد بیمار ہو جائے اور مسجد سے چلا جائے تو کیا وہ قضا کرے اُن دنوں کی جتنے دن باقی رہے تھے جب تندرست ہو جائے، یا قضا نہ کرے، اور جو قضا کرے تو کس مہینے میں؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ قضا کرے اُن دنوں کی جب اچھا ہو جائے، رمضان میں یا اور کسی مہینے میں۔
وقد بلغني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اراد العكوف في رمضان، ثم رجع فلم يعتكف حتى إذا ذهب رمضان، اعتكف عشرا من شوال وَقَدْ بَلَغَنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ الْعُكُوفَ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ رَمَضَانُ، اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ
کہا مالک رحمہ اللہ نے: مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آئےاور اعتکاف نہ کیا یہاں تک کہ بعد رمضان کے اعتکاف کیا شوال میں دس روز تک۔
والمتطوع في الاعتكاف في رمضان، والذي عليه الاعتكاف امرهما واحد فيما يحل لهما ويحرم عليهما ولم يبلغني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان اعتكافه إلا تطوعا وَالْمُتَطَوِّعُ فِي الْاعْتِكَافِ فِي رَمَضَانَ، وَالَّذِي عَلَيْهِ الْاعْتِكَافُ أَمْرُهُمَا وَاحِدٌ فِيمَا يَحِلُّ لَهُمَا وَيَحْرُمُ عَلَيْهِمَا وَلَمْ يَبْلُغْنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ اعْتِكَافُهُ إِلَّا تَطَوُّعًا
اور اعتکاف نفل اور فرض کا ایک حال ہے، جو کام درست ہیں دونوں میں درست ہیں، اور جو منع ہیں دونوں میں منع ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے یہی پہنچا کہ اعتکاف آپ کا نفل تھا۔
قال مالك في المراة: إنها إذا اعتكفت ثم حاضت في اعتكافها إنها ترجع إلى بيتها، فإذا طهرت رجعت إلى المسجد اية ساعة طهرت، ثم تبني على ما مضى من اعتكافهاقَالَ مَالِك فِي الْمَرْأَةِ: إِنَّهَا إِذَا اعْتَكَفَتْ ثُمَّ حَاضَتْ فِي اعْتِكَافِهَا إِنَّهَا تَرْجِعُ إِلَى بَيْتِهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ رَجَعَتْ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيَّةَ سَاعَةٍ طَهُرَتْ، ثُمَّ تَبْنِي عَلَى مَا مَضَى مِنَ اعْتِكَافِهَا
کہا مالک رحمہ اللہ نے: اگر عورت اعتکاف کرے، پھر اس کو حیض آ جائے تو وہ اپنے گھر چلی آئے، پھر جب پاک ہو مسجد میں جائے اور دیر نہ کرے، اور بنا کرے پہلے اعتکاف پر۔
ومثل ذلك المراة يجب عليها صيام شهرين متتابعين، فتحيض ثم تطهر فتبني على ما مضى من صيامها ولا تؤخر ذلك وَمِثْلُ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ يَجِبُ عَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، فَتَحِيضُ ثُمَّ تَطْهُرُ فَتَبْنِي عَلَى مَا مَضَى مِنْ صِيَامِهَا وَلَا تُؤَخِّرُ ذَلِكَ
اور ایسے ہی جس عورت پر دو ماہ کے روزے پے در پے واجب ہوں اور اس کو حیض آ جائے تو روزے نہ رکھے مگر حیض سے پاک ہوتے ہی، پھر روزے شروع کر دے اور دیر نہ کرے۔