(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، حدثنا إسماعيل ، عن قيس ، عن ابن مسعود ، قال:" كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شباب، وليس لنا نساء، فقلنا: يا رسول الله، الا نستخصي؟ فنهانا عن ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ:" كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَابٌ، وَلَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، ہم لوگ جوان تھے، ہمارے ساتھ عورتیں نہیں ہوتی تھیں، ایک مرتبہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسلام کی چکی پئنتیس (35)، چھتیس (36) یا سئنتیس (37) سال تک گھومتی رہے گی، اس کے بعد اگر مسلمان ہلاک ہوئے تو ہلاک ہونے والوں کی راہ پر چلے جائیں گے اور اگر باقی بچ گئے تو ستر سال تک ان کا دین باقی رہے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وأن عبدالرحمن بن عبدالله لم يسمع من أبيه إلا الشيء اليسير.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا المسعودي ، حدثني عاصم ، عن ابي وائل ، قال: قال عبد الله حيث قتل ابن النواحة: إن هذا وابن اثال، كانا اتيا النبي صلى الله عليه وسلم، رسولين لمسيلمة الكذاب، فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتشهدان اني رسول الله؟" قالا: نشهد ان مسيلمة رسول الله!! فقال:" لو كنت قاتلا رسولا، لضربت اعناقكما"، قال: فجرت سنة ان لا يقتل الرسول، فاما ابن اثال، فكفاناه الله عز وجل، واما هذا، فلم يزل ذلك فيه، حتى امكن الله منه الآن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، حَدَّثَنِي عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ حَيْثُ قُتِلَ ابْنُ النَّوَّاحَةِ: إِنَّ هَذَا وَابْنَ أُثَالٍ، كَانَا أَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَسُولَيْنِ لمُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابِ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟" قَالَا: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللَّهِ!! فَقَالَ:" لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا، لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا"، قَالَ: فَجَرَتْ سُنَّةً أَنْ لَا يُقْتَلَ الرَّسُولُ، فَأَمَّا ابْنُ أُثَالٍ، فَكَفَانَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا هَذَا، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ فِيهِ، حَتَّى أَمْكَنَ اللَّهُ مِنْهُ الْآنَ.
ابووائل کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابن نواحہ کو قتل کیا تو فرمایا کہ یہ اور ابن اثال، مسیلمہ کذاب کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بن کر آئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا تھا: ”کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ انہوں نے کہا کہ ہم تو مسیلمہ کے پیغمبر اللہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں قاصدوں کو قتل کرتا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا“، اس وقت سے یہ رواج ہو گیا کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جاتا، بہرحال! ابن اثال سے تو اللہ نے ہماری کفایت فرما لی (وہ مر گیا) یہ شخص اسی طرح رہا، یہاں تک کہ اب اللہ نے اس پر قابو عطا فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، يزيد سمع من المسعودي بعد ما اختلط ، والمسعودي كان يغلط فيما يرويه عن عاصم.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن عمرو بن مرة ، عن إبراهيم النخعي ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: اضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم على حصير، فاثر في جنبه، فلما استيقظ جعلت امسح جنبه، فقلت: يا رسول الله، الا آذنتنا حتى نبسط لك على الحصير شيئا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لي وللدنيا؟ ما انا والدنيا؟ إنما مثلي ومثل الدنيا كراكب ظل تحت شجرة، ثم راح وتركها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ، فَأَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ جَعَلْتُ أَمْسَحُ جَنْبَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا آذَنْتَنَا حَتَّى نَبْسُطَ لَكَ عَلَى الْحَصِيرِ شَيْئًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لِي وَلِلدُّنْيَا؟ مَا أَنَا وَالدُّنْيَا؟ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا كَرَاكِبٍ ظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر پڑ گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کو جھاڑنے لگا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس بات کی اجازت کیوں نہیں دیتے کہ اس چٹائی پر کچھ بچھا دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے دنیا سے کیا، میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی سی ہے جو تھوڑی دیر سایہ لینے کے لئے کسی درخت کے نیچے رکا، پھر اسے چھوڑ کر چل پڑا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، يزيد- وإن سمع من المسعودي بعد الاختلاط - متابع.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا المسعودي ، عن جامع بن شداد ، عن عبد الرحمن بن ابي علقمة الثقفي ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: لما انصرفنا من غزوة الحديبية، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من يحرسنا الليلة؟" قال عبد الله: فقلت: انا، فقال:" إنك تنام"، ثم اعاد:" من يحرسنا الليلة؟" فقلت: انا، حتى عاد مرارا، قلت: انا يا رسول الله، قال:" فانت إذا"، قال: فحرستهم، حتى إذا كان وجه الصبح، ادركني قول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك تنام"، فنمت، فما ايقظنا إلا حر الشمس في ظهورنا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصنع كما كان يصنع من الوضوء، وركعتي الفجر، ثم صلى بنا الصبح، فلما انصرف، قال:" إن الله عز وجل، لو اراد ان لا تناموا عنها، لم تناموا، ولكن اراد ان تكونوا لمن بعدكم، فهكذا لمن نام او نسي"، قال: ثم إن ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإبل القوم تفرقت، فخرج الناس في طلبها، فجاءوا بإبلهم، إلا ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عبد الله: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذ ههنا"، فاخذت حيث قال لي، فوجدت زمامها قد التوى على شجرة، ما كانت لتحلها إلا يد، قال: فجئت بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق نبيا، لقد وجدت زمامها ملتويا على شجرة، ما كانت لتحلها إلا يد، قال: ونزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة الفتح: إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ؟" قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: أَنَا، فقال:" إِنَّكَ تنامُ"، ثم أعاد:" مَنْ يَحْرُسُنا اللَّيْلَةَ؟" فقلت: أَنَا، حَتَّى عَادَ مِرَارًا، قُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَأَنْتَ إِذًا"، قَالَ: فَحَرَسْتُهُمْ، حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ، أَدْرَكَنِي قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ تَنَامُ"، فَنِمْتُ، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ فِي ظُهُورِنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ مِنَ الْوُضُوءِ، وَرَكْعَتَيْ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلَّى بِنَا الصُّبْحَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، لَوْ أَرَادَ أَنْ لَا تَنَامُوا عنها، لَمْ تَنَامُوا، وَلَكِنْ أَرَادَ أَنْ تَكُونُوا لِمَنْ بَعْدَكُمْ، فَهَكَذَا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِيَ"، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ نَاقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِبِلَ الْقَوْمِ تَفَرَّقَتْ، فَخَرَجَ النَّاسُ فِي طَلَبِهَا، فَجَاءُوا بِإِبِلِهِمْ، إِلَّا نَاقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْ هَهُنَا"، فَأَخَذْتُ حَيْثُ قَالَ لِي، فَوَجَدْتُ زِمَامَهَا قَدْ الْتَوَى عَلَى شَجَرَةٍ، مَا كَانَتْ لِتَحُلَّهَا إِلَّا يَدٌ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا، لَقَدْ وَجَدْتُ زِمَامَهَا مُلْتَوِيًا عَلَى شَجَرَةٍ، مَا كَانَتْ لِتَحُلَّهَا إِلَّا يَدٌ، قَالَ: وَنَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةُ الْفَتْحِ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے رات کو واپس آ رہے تھے، ہم نے ایک نرم زمین پر پڑاؤ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری خبرگیری کون کرے گا؟ (فجر کے لئے کون جگائے گا؟)“، میں نے اپنے آپ کو پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم بھی سوگئے تو؟“ میں نے عرض کیا: نہیں سوؤں گا، کئی مرتبہ کی تکرار کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ ہی کو متعین فرما دیا اور میں پہرہ داری کرنے لگا، لیکن جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”تم بھی سو جاؤ گے“ کے مطابق میری بھی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ سورج نکل آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور اسی طرح وضو اور فجر کی سنتیں ادا کیں جیسے کرتے تھے، پھر ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور فارغ ہو کر فرمایا: ”اگر اللہ چاہتا کہ تم نہ سوؤ تو تم کبھی نہ سوتے، لیکن اللہ کی مشیت تھی کہ بعد والوں کے لئے تم پیشوا بن جاؤ، لہذا اب اگر کوئی شخص نماز کے وقت میں سو جائے یا بھول جائے تو اسے اسی طرح کرنا چاہئے۔“ راوی کہتے ہیں کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اور لوگوں کے اونٹ منتشر ہو گئے، لوگ انہیں تلاش کرنے کے لئے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے علاوہ تمام اونٹ مل گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یہاں جا کر تلاش کرو“، میں متعلقہ جگہ پہنچا تو دیکھا کہ اس کی لگام ایک درخت سے الجھ گئی ہے، جسے ہاتھ سے ہی کھولنا ممکن تھا، میں اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس کی لگام درخت سے الجھی ہوئی دیکھی تھی جسے ہاتھ سے ہی کھولنا ممکن تھا، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فتح نازل ہوئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد سمع من المسعودي بعد الاختلاط.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن يحيى بن الحارث الجابر ، عن ابي ماجد ، قال: اتى رجل ابن مسعود بابن اخ له، فقال له: إن هذا ابن اخي، وقد شرب، فقال عبد الله : لقد علمت اول حد كان في الإسلام: امراة سرقت، فقطعت يدها، فتغير لذلك وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم تغيرا شديدا، ثم قال:" وليعفوا وليصفحوا الا تحبون ان يغفر الله لكم والله غفور رحيم سورة النور آية 22.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الْجَابِرِ ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ ابْنَ مَسْعُودٍ بِابْنِ أَخٍ لَهُ، فَقَالَ له: إِنَّ هَذَا ابْنُ أَخِي، وَقَدْ شَرِبَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : لَقَدْ عَلِمْتُ أَوَّلَ حَدٍّ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ: امْرَأَةٌ سَرَقَتْ، فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَتَغَيَّرَ لِذَلِكَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغَيُّرًا شَدِيدًا، ثُمَّ قَالَ:" وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22.
ابوماجد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص اپنا ایک بھتیجا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور اس نے شراب پی رکھی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلے سزا کس پر جاری کی گئی تھی؟ ایک عورت تھی جس نے چوری کی تھی، اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ اڑ گیا اور فرمایا: ”انہیں معاف کرنا اور در گزر کرنا چاہیے تھا، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده مسلسل بالضعفاء، يزيد سمع من المسعودي بعد الاختلاط ، ويحيى ضعيف، وأبو ماجد مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا فضيل بن مرزوق ، حدثنا ابو سلمة الجهني ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اصاب احدا قط هم ولا حزن، فقال: اللهم إني عبدك، وابن عبدك، وابن امتك، ناصيتي بيدك، ماض في حكمك، عدل في قضاؤك، اسالك بكل اسم هو لك سميت به نفسك، او علمته احدا من خلقك، او انزلته في كتابك، او استاثرت به في علم الغيب عندك، ان تجعل القرآن ربيع قلبي، ونور صدري، وجلاء حزني، وذهاب همي، إلا اذهب الله همه وحزنه، وابدله مكانه فرجا"، قال: فقيل: يا رسول الله، الا نتعلمها؟ فقال:" بلى، ينبغي لمن سمعها ان يتعلمها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا"، قَالَ: فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَتَعَلَّمُهَا؟ فَقَالَ:" بَلَى، يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو جب کبھی کوئی مصیبت یا غم لاحق ہو اور وہ یہ کلمات کہہ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت اور غم کو دور کر کے اس کی جگہ خوشی عطا فرمائیں گے، وہ کلمات یہ ہیں: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي»”اے اللہ! میں آپ کا غلام ابن غلام ہوں، آپ کی باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میری ذات پر آپ ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ عدل و انصاف والا ہے، میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو آپ نے اپنے لئے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ آپ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور، غم میں روشنی اور پریشانی کی دوری کا ذریعہ بنا دیں“، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس دعا کو سیکھ لیں؟ فرمایا: ”کیوں نہیں، جو بھی اس دعا کو سنے اس کے لئے مناسب ہے کہ اسے سیکھ لے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وأبو سلمة الجهني مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا شريك بن عبد الله ، عن علي بن بذيمة ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لما وقعت بنو إسرائيل في المعاصي، نهتهم علماؤهم، فلم ينتهوا، فجالسوهم في مجالسهم قال يزيد: احسبه قال: واسواقهم، وواكلوهم وشاربوهم، فضرب الله قلوب بعضهم ببعض، ولعنهم على لسان داود، وعيسى ابن مريم، ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون"، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم متكئا، فجلس، فقال:" لا، والذي نفسي بيده، حتى تاطروهم على الحق اطرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي، نَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ، فَلَمْ يَنْتَهُوا، فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ قَالَ يَزِيدُ: أَحْسِبُهُ قَالَ: وَأَسْوَاقِهِمْ، وَوَاكَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُمْ، فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، وَلَعَنَهُمْ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ، وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ"، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا، فَجَلَسَ، فَقَالَ:" لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى تَأْطُرُوهُمْ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو ان کے علماء نے انہیں اس سے روکا، لیکن جب وہ باز نہ آئے تب بھی ان کے علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھتے رہے، ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا اور ان پر حضرت داؤود و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت فرمائی، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ چکے تھے۔“ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیے سے ٹیک لگا رکھی تھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جب تک تم لوگوں کو حق کی طرف موڑ نہیں دیتے (اس وقت تک ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا تمہیں ان ہی کے زمرے میں شامل کر دے گا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يمسع من أبيه عبدالله.
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن آخر من يدخل الجنة رجل يمشي على الصراط، فينكب مرة، ويمشي مرة، وتسفعه النار مرة، فإذا جاوز الصراط، التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد اعطاني الله ما لم يعط احدا من الاولين والآخرين، قال: فترفع له شجرة، فينظر إليها، فيقول: يا رب، ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، فلعلي إن ادنيتك منها سالتني غيرها، فيقول: لا يا رب، ويعاهد الله ان لا يساله غيرها، والرب عز وجل يعلم انه سيساله، لانه يرى ما لا صبر له يعني عليه فيدنيه منها، ثم ترفع له شجرة، وهي احسن منها، فيقول: يا رب ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، الم تعاهدني؟ يعني انك لا تسالني غيرها! فيقول: يا رب، هذه لا اسالك غيرها، ويعاهده، والرب يعلم انه سيساله غيرها، فيدنيه منها، فترفع له شجرة عند باب الجنة، هي احسن منها، فيقول: رب ادنني من هذه الشجرة، استظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟! فيقول: يا رب، هذه الشجرة، لا اسالك غيرها، ويعاهده، والرب يعلم انه سيساله غيرها، لانه يرى ما لا صبر له عليها، فيدنيه منها، فيسمع اصوات اهل الجنة، فيقول: يا رب، الجنة، الجنة، فيقول: يا عبدي، الم تعاهدني انك لا تسالني غيرها؟! فيقول: يا رب ادخلني الجنة، قال: فيقول عز وجل: ما يصريني منك، اي عبدي؟ ايرضيك ان اعطيك من الجنة الدنيا ومثلها معها؟ قال: فيقول: اتهزا بي، وانت رب العزة"، قال: فضحك عبد الله حتى بدت نواجذه، ثم قال: الا تسالوني لم ضحكت؟ قالوا له: لم ضحكت؟ قال: لضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا تسالوني لم ضحكت؟" قالوا: لم ضحكت يا رسول الله؟ قال:" لضحك الرب، حين قال: اتهزا بي، وانت رب العزة؟!".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ البُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ آخِرَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَمْشِي عَلَى الصِّرَاطِ، فَيَنْكَبُّ مَرَّةً، وَيَمْشِي مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ، الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ مَا لَمْ يُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، قَالَ: فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، فَلَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُ اللَّهَ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَالرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ يَعْنِي عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، وَهِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي؟ يَعْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَيُعَاهِدُهُ، وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، هِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا، فَيَقُولُ: رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، أَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، هَذِهِ الشَّجَرَةُ، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَيُعَاهِدُهُ، وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، الْجَنَّةَ، الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يا عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا؟! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَقُولُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا يَصْرِينِي مِنْكَ، أَيْ عَبْدِي؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ مِنَ الْجَنَّةِ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَهْزَأُ بِي، وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ"، قَالَ: فَضَحِكَ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ؟ قَالُوا لَهُ: لِمَ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: لِضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ؟" قَالُوا: لِمَ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِضَحِكِ الرَّبِّ، حِينَ قَالَ: أَتَهْزَأُ بِي، وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ؟!".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ آدمی ہو گا جو پل صراط پر چلتے ہوئے کبھی اوندھا گر جاتا ہو گا، کبھی چلنے لگتا ہو گا اور کبھی آگ کی لپٹ اسے جھلسا دیتی ہو گی، جب وہ پل صراط کو عبور کر چکے گا تو اس کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اللہ نے یہ مجھے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے جو اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دی۔ اس کے بعد اس کی نظر ایک درخت پر پڑے گی جو اسی کی وجہ سے وہاں لایا گیا ہوگا، وہ اسے دیکھ کر کہے گا کہ پروردگار! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ”اے میرے بندے! اگر میں نے تجھے اس درخت کے قریب کر دیا تو تو مجھ سے کچھ اور بھی مانگے گا؟“ وہ عرض کرے گا: نہیں، پروردگار! اور اللہ سے کسی اور چیز کا سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا حالانکہ پروردگار کے علم میں یہ بات ہوگی کہ وہ اس سے مزید کچھ اور بھی مانگے گا کیونکہ اس کے سامنے چیزیں ہی ایسی آئیں گی جن پر صبر نہیں کیا جا سکتا، تاہم اسے اس درخت کے قریب کر دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر اس سے بھی زیادہ خوبصورت درخت پر پڑے گی اور حسب سابق سوال جواب ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ”بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! بس اس مرتبہ اور، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ چکا ہوگا اور اس کے کانوں میں اہل جنت کی آوازیں پہنچ رہی ہوں گی، وہ عرض کرے گا: پروردگار! مجھے جنت میں داخلہ عطا فرما، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ ”اے بندے! تجھ سے میرا پیچھا کیا چیز چھڑائے گی؟ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تجھے جنت میں دنیا اور اس کے برابر مزید دے دیا جائے؟“ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! تو رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟“ اتنا کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اتنا ہنسے کہ ان کے دندان ظاہر ہو گئے، پھر کہنے لگے کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ خود ہی اپنے ہنسنے کی وجہ بتا دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی وجہ سے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر مسکرائے تھے اور ہم سے فرمایا تھا کہ ”تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود ہی اپنے مسکرانے کی وجہ بتا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پروردگار کے ہنسنے کی وجہ سے، جب اس نے یہ عرض کیا کہ پروردگار! آپ رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔“