(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن آخر من يدخل الجنة رجل يمشي على الصراط، فينكب مرة، ويمشي مرة، وتسفعه النار مرة، فإذا جاوز الصراط، التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد اعطاني الله ما لم يعط احدا من الاولين والآخرين، قال: فترفع له شجرة، فينظر إليها، فيقول: يا رب، ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، فلعلي إن ادنيتك منها سالتني غيرها، فيقول: لا يا رب، ويعاهد الله ان لا يساله غيرها، والرب عز وجل يعلم انه سيساله، لانه يرى ما لا صبر له يعني عليه فيدنيه منها، ثم ترفع له شجرة، وهي احسن منها، فيقول: يا رب ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، الم تعاهدني؟ يعني انك لا تسالني غيرها! فيقول: يا رب، هذه لا اسالك غيرها، ويعاهده، والرب يعلم انه سيساله غيرها، فيدنيه منها، فترفع له شجرة عند باب الجنة، هي احسن منها، فيقول: رب ادنني من هذه الشجرة، استظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول: اي عبدي، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟! فيقول: يا رب، هذه الشجرة، لا اسالك غيرها، ويعاهده، والرب يعلم انه سيساله غيرها، لانه يرى ما لا صبر له عليها، فيدنيه منها، فيسمع اصوات اهل الجنة، فيقول: يا رب، الجنة، الجنة، فيقول: يا عبدي، الم تعاهدني انك لا تسالني غيرها؟! فيقول: يا رب ادخلني الجنة، قال: فيقول عز وجل: ما يصريني منك، اي عبدي؟ ايرضيك ان اعطيك من الجنة الدنيا ومثلها معها؟ قال: فيقول: اتهزا بي، وانت رب العزة"، قال: فضحك عبد الله حتى بدت نواجذه، ثم قال: الا تسالوني لم ضحكت؟ قالوا له: لم ضحكت؟ قال: لضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا تسالوني لم ضحكت؟" قالوا: لم ضحكت يا رسول الله؟ قال:" لضحك الرب، حين قال: اتهزا بي، وانت رب العزة؟!".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ البُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ آخِرَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَمْشِي عَلَى الصِّرَاطِ، فَيَنْكَبُّ مَرَّةً، وَيَمْشِي مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ، الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ مَا لَمْ يُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، قَالَ: فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، فَلَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُ اللَّهَ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَالرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ يَعْنِي عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، وَهِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي؟ يَعْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَيُعَاهِدُهُ، وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، هِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا، فَيَقُولُ: رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، أَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، هَذِهِ الشَّجَرَةُ، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَيُعَاهِدُهُ، وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، الْجَنَّةَ، الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يا عَبْدِي، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا؟! فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَقُولُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا يَصْرِينِي مِنْكَ، أَيْ عَبْدِي؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ مِنَ الْجَنَّةِ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَهْزَأُ بِي، وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ"، قَالَ: فَضَحِكَ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ؟ قَالُوا لَهُ: لِمَ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: لِضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ؟" قَالُوا: لِمَ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِضَحِكِ الرَّبِّ، حِينَ قَالَ: أَتَهْزَأُ بِي، وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ؟!".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ آدمی ہو گا جو پل صراط پر چلتے ہوئے کبھی اوندھا گر جاتا ہو گا، کبھی چلنے لگتا ہو گا اور کبھی آگ کی لپٹ اسے جھلسا دیتی ہو گی، جب وہ پل صراط کو عبور کر چکے گا تو اس کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اللہ نے یہ مجھے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے جو اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دی۔ اس کے بعد اس کی نظر ایک درخت پر پڑے گی جو اسی کی وجہ سے وہاں لایا گیا ہوگا، وہ اسے دیکھ کر کہے گا کہ پروردگار! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ”اے میرے بندے! اگر میں نے تجھے اس درخت کے قریب کر دیا تو تو مجھ سے کچھ اور بھی مانگے گا؟“ وہ عرض کرے گا: نہیں، پروردگار! اور اللہ سے کسی اور چیز کا سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا حالانکہ پروردگار کے علم میں یہ بات ہوگی کہ وہ اس سے مزید کچھ اور بھی مانگے گا کیونکہ اس کے سامنے چیزیں ہی ایسی آئیں گی جن پر صبر نہیں کیا جا سکتا، تاہم اسے اس درخت کے قریب کر دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر اس سے بھی زیادہ خوبصورت درخت پر پڑے گی اور حسب سابق سوال جواب ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ”بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! بس اس مرتبہ اور، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ چکا ہوگا اور اس کے کانوں میں اہل جنت کی آوازیں پہنچ رہی ہوں گی، وہ عرض کرے گا: پروردگار! مجھے جنت میں داخلہ عطا فرما، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ ”اے بندے! تجھ سے میرا پیچھا کیا چیز چھڑائے گی؟ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تجھے جنت میں دنیا اور اس کے برابر مزید دے دیا جائے؟“ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! تو رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟“ اتنا کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اتنا ہنسے کہ ان کے دندان ظاہر ہو گئے، پھر کہنے لگے کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ خود ہی اپنے ہنسنے کی وجہ بتا دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی وجہ سے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر مسکرائے تھے اور ہم سے فرمایا تھا کہ ”تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود ہی اپنے مسکرانے کی وجہ بتا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پروردگار کے ہنسنے کی وجہ سے، جب اس نے یہ عرض کیا کہ پروردگار! آپ رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔“