مسند عبدالله بن مبارك کل احادیث 289 :حدیث نمبر
مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 271
Save to word اعراب
انا انا حماد بن سلمة، عن ابي عمران الجوني انه حدثه، قال: قلت لجندب: إني بايعت عبد الله بن الزبير على ان اقاتل اهل الشام، قال: لعلك تريد ان تقول: قال لي جندب، وقال لي جندب؟ فقلت: لا، إنما استفتيك لنفسي، قال: افتد بمالك؟ فقال: لا يقبل مني، فقال جندب: إني كنت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم غلاما حزورا، وإنه حدثني فلان? انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يجيء المقتول يوم القيامة متعلقا بالقاتل، فيقول: اي رب، قتلني هذا، فيقول الله: فيم قتلته؟ فيقول: في ملك فلان، فاتق الا تكون ذلك الرجل".أنا أنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِجُنْدُبٍ: إِنِّي بَايَعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى أَنْ أُقَاتِلَ أَهْلَ الشَّامِ، قَالَ: لَعَلَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَقُولَ: قَالَ لِي جُنْدَبٌ، وَقَالَ لِي جُنْدَبٌ؟ فَقُلْتُ: لا، إِنَّمَا أَسْتَفْتِيكَ لِنَفْسِي، قَالَ: افْتَدِ بِمَالِكَ؟ فَقَالَ: لا يُقْبَلُ مِنِّي، فَقَالَ جُنْدَبٌ: إِنِّي كُنْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلامًا حَزَوَّرًا، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي فُلانٌ? أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَجِيءُ الْمَقْتُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُتَعِلِّقًا بِالْقَاتِلِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، قَتَلَنِي هَذَا، فَيَقُولُ اللَّهُ: فِيمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: فِي مُلْكِ فُلانٍ، فَاتَّقِ أَلا تَكُونَ ذَلِكَ الرَّجُلَ".
ابو عمران جونی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے جندب رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ میں اہل شام سے قتال کروں گا۔ انہوں نے فرمایا کہ شاید تو یہ چاہتا ہے کہ تو کہتا پھرے: جندب نے مجھے یہ کہا ہے، جندب نے مجھے یہ کہا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں، میں بس آپ سے فتویٰ پوچھ رہا ہوں، آپ ضرور مجھے فتویٰ دیں،ا نہوں نے فرمایا کہ اپنے مال کے بدلے فدیہ دے دے۔ میں نے کہا کہ وہ مجھ سے قبول نہیں کیاجائے گا، جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بے شک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک طاقت ور نوجوان تھا اور مجھے فلاں (صحابی)نے بیان کیا کہ یقینا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا:قیامت والے دن مقتول، قاتل سے چمٹا ہوا آئے گا اور کہے گا: یا رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ اس سے کہے گا، کس وجہ سے اسے قتل کیاتھا؟ وہ کہے گا کہ فلاں کی بادشاہت کے لیے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ تم وہ شخص نہ بنو۔

تخریج الحدیث: «مسند احمد: 23165۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 272
Save to word اعراب
انا ابو جعفر، عن ليث، عن منذر الثوري، عن محمد بن علي ابن الحنفية، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا حرج إلا في قتل المسلم، ثلاثا".أنا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا حَرَجَ إِلا فِي قَتْلِ الْمُسْلِمِ، ثَلاثًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرج صرف مسلمان کے قتل میں ہے، یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

تخریج الحدیث: «المعجم الأوسط طبراني: 8148»
حدیث نمبر: 273
Save to word اعراب
وقال ابن الحنفية: ((لو ان الناس تابعوني إلا رجل لم يسدد سلطاني إلا به ما قتلته))وَقَالَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ: ((لَوْ أَنَّ النَّاسَ تَابَعُونِي إِلَّا رَجُلٌ لَمْ يُسَدَّدْ سُلْطَانِي إِلَّا بِهِ مَا قَتَلْتُهُ))
اور ابن حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر بے شک سب لوگ میری بیعت کر لیں، سوائے ایک آدمی کے،میری سلطنت اس کے بغیر درست نہ ہوتی ہو تو میں اس (بیعت)کو قبول نہ کروں گا۔
حدیث نمبر: 274
Save to word اعراب
انا يونس بن ابي إسحاق، حدثني هلال بن خباب، قال: سمعت عكرمة مولى ابن عباس، قال: ثنا عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: بينما نحن حول النبي صلى الله عليه وسلم، إذ ذكر الفتنة، او ذكرت عنده، فقال: " إذا رايت الناس مرجت عهودهم، وخفت اماناتهم، كانوا هكذا، فشبك بين انامله"، فقمت إليه، فقلت: فكيف افعل عند ذلك يا نبي الله، جعلني الله فداك؟ قال:" الزم بيتك، واملك عليك لسانك، وخذ ما تعرف، وذر ما تنكر، وعليك بامر خاصة نفسك، وذر عنك امر العامة".أنا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي هِلالُ بْنُ خَبَّابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ ذَكَرَ الْفِتْنَةَ، أَوْ ذُكِرَتْ عِنْدَهُ، فَقَالَ: " إِذَا رَأَيْتَ النَّاسَ مَرَجَتْ عُهُودُهُمْ، وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ، كَانوا هَكَذَا، فَشَبَّكَ بَيْنَ أَنَامِلِهِ"، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: فَكَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ؟ قَالَ:" الْزَمْ بَيْتَكَ، وَأَمْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَخُذْ مَا تَعْرِفُ، وَذَرْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ، وَذَرْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ".
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ اسی دوران ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کا ذکر کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو لوگوں کو دیکھے کہ ان کے عہد و پیمان کھوٹے ہو گئے ہیں اور ا ن کی امانتیں ہلکی ہو گئی ہیں اور وہ اس طرح ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کے پوروں کے درمیان تشبیک دی۔ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑا ہوا اور گویا ہوا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت میں کیسے کروں اللہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر کو لازم کر لے،ا پنے اوپراپنی زبان کو روک لے، پکڑ جسے تو پہچانتا ہے اور چھوڑ دے جس کا تو انکار کرتا ہے، تجھ پر خاص اپنی جان کا معاملہ لازم ہے اور اپنے آ پ سے عوام کا معاملہ چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «سنن أبي داؤد: 4343۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: حسن صحیح
حدیث نمبر: 275
Save to word اعراب
انا ابو جعفر، عن هارون بن سعد، قال: لقي الخيف بن السحق حبيس بن دلجة، في اهل الشام بالربذة، فقاتلهم فهزمهم، ثم دخل المدينة، فلقي ابن عمر، فقال: يا ابن عمر، ما يبطئ بك عن ابن الزبير، الم يكن اخاك قديما، فإن الناس قد ابطئوا عنه لإبطائك؟ فقال: ابن الزبير وضع يده في قفه، وهل تدري ما قفه؟ قال: لا، قال: الم تر المراة ترضع ولدها حتى إذا روي او شبع، سلخ فوضع يده في فيه، قالت امه: قفه، وإني والله لاكونن مثل الحمل الرداح، قال: وهل تدري ما الحمل الرداح؟ قال: لا، قال: هو البعير يخلو فيبرك ولا يبرح مبركه حتى ينحر فيه، فإني مثل ذلك الحمل الزم بيتي حتى ما ياتيني من ينحرني فيه، او يجتمع الناس على رجل، فإن اجتمعوا على كثب في صالح جماعتهم فإن اقترفوا لم اجامعهم على فرقتهم، ولا اعمل على رجلين بعد الذي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من رجل استرعاه الله رعية، إلا ساله الله عنها يوم القيامة، اقام الله فيهم ام اضاعه، حتى إن الرجل ليسال عن اهله، اقام امر الله فيهم ام اضاعه".أنا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: لَقِيَ الْخَيْفُ بْنُ السَّحَقِ حُبَيْسَ بْنَ دُلْجَةَ، فِي أَهْلِ الشَّامِ بِالرَّبَذَةِ، فَقَاتَلَهُمْ فَهَزَمَهُمْ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، مَا يُبْطِئُ بكَ عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَلَمْ يَكُنْ أَخَاكَ قَدِيمًا، فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَبْطَئُوا عَنْهُ لإِبْطَائِكَ؟ فَقَالَ: ابْنُ الزُّبَيْرِ وَضَعَ يَدَهُ فِي قِفِّهِ، وَهَلْ تَدْرِي مَا قِفُّهُ؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَلَمْ تَرَ الْمَرْأَةَ تُرْضِعُ وَلَدَهَا حَتَّى إِذَا رَوِيَ أَوْ شَبِعَ، سَلَخَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي فِيهِ، قَالَتْ أُمُّهُ: قِفِّهِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لأَكُونَنَّ مِثْلَ الْحَمَلِ الرَّدَاحِ، قَالَ: وَهَلْ تَدْرِي مَا الْحَمَلُ الرَّدَاحُ؟ قَالَ: لا، قَالَ: هُوَ الْبَعِيرُ يَخْلُو فَيَبْرُكُ وَلا يَبْرَحُ مَبْرَكَهُ حَتَّى يُنْحَرَ فِيهِ، فَإِنِّي مِثْلُ ذَلِكَ الْحَمَلِ أَلْزَمُ بَيْتِيَ حَتَّى مَا يَأْتِينِي مَنْ يَنْحَرُنِي فِيهِ، أَوْ يَجْتَمِعُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ، فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى كَثَبٍ فِي صَالِحِ جَمَاعَتِهِمْ فَإِنِ اقْتَرَفُوا لَمْ أُجَامِعْهُمْ عَلَى فُرْقَتِهِمْ، وَلا أَعْمَلُ عَلَى رَجُلَيْنِ بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، إِلا سَأَلَهُ اللَّهُ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَقَامَ اللَّهُ فِيهِمْ أَمْ أَضَاعَهُ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُسْأَلُ عَنْ أَهْلِهِ، أَقَامَ أَمْرَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ أَضَاعَهُ".
ہارون بن سعد نے بیان کیا کہ حنیف بن سجق ربذہ مقام پر اہل شام کے ابن دلجہ کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوا، ان سے جنگ کی اور انہیں شکست دے دی۔ پھر حنیف مدینے میں داخل ہوا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور کہا:اے ابن عمررضی اللہ عنہما! کون سی چیز آپ کو ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے پیچھے رکھتی ہے، کیا آپ ان کے پرانے زمانے سے بھائی نہیں ہیں، یقینا لوگ آپ کی تاخیر کی وجہ سے، ان سے پیچھے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور تحقیق اس نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں رکھا اور کہا، کیا تو جانتا ہے کہ اس کے منہ میں ہاتھ رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ کہا کہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نے عورت کو نہیں دیکھا جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ سیراب ہوجاتا ہے یا سیر ہوجاتا ہے تو بے مزہ ہوجاتا ہے اور اپنا ہاتھ اپنے منہ میں رکھ لیتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے کہ میں نے ہاتھ منہ میں رکھ لیا ہے اور بے شک میں اللہ کی قسم! میں ضرور بھار ی وزن والے اونٹ کی طرح ہو جاؤں گا اور کیا تم جانتے ہو کہ بھاری وزن والا اونٹ کیا ہے؟ کہا کہ نہیں: فرمایا: وہ اونٹ ہے جو علیحدہ ہوجاتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے اور ہمیشہ اپنی اسی بیٹھنے کی جگہ پر رہتا ہے، یہاں تک کہ وہاں ذبح کردیا جاتا ہے تو میں بھی اس اونٹ کی مثل ہوں۔ میں اپنے گھر کو لازم کر لوں گا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ آئے جو مجھے اس میں ذبح کر دے یا لوگ ایک آدمی پر اکٹھے ہوجائیں۔ اگر انہوں نے اپنی نیک جماعتوں میں قرب پر اکٹھ کرلیا (تو درست)اور اگر وہ افتراق و انتشار کریں گے تو میں ان کے افتراق میں ان کے ساتھ اکٹھانہیں ہوں گا اور نہ میں دو آدمیوں پر عمل (بیعت)کروں گا، اس کے بعد کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی بھی آدمی کہ جسے اللہ نے کسی رعیت کی نگرانی سونپی تو قیامت والے دن اس سے اس کے بارے ضرور سوال کرے گا، آیا ان میں اللہ کا حکم قائم کیا یا اسے ضائع کر دیا، یہاں تک کہ بے شک آدمی سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ان میں اللہ کا حکم قائم کیا یا اسے ضائع کر دیا۔

تخریج الحدیث: «مجمع الزوائد: 207/5، فتح الباري: 113/13۔»

حكم: مبہم
حدیث نمبر: 276
Save to word اعراب
انا شعبة، عن منصور، عن ربعي بن حراش، قال: سمعت رجلا في جنازة حذيفة، يقول: سمعت صاحب هذا السرير، يقول: ما بي باس بما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ولئن اقتتلتم لادخلن بيتي، فلئن دخل علي لاقولن ابوء بإثمي وإثمك".أنا شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا فِي جِنَازَةِ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ صَاحِبَ هَذَا السَّرِيرِ، يَقُولُ: مَا بِي بَأْسٌ بِمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَلَئِنِ اقْتَتَلْتُمْ لأَدْخُلَنَّ بَيْتِي، فَلَئِنْ دَخَلَ عَلَيَّ لأَقُولَنَّ أَبُوءُ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ".
ربعی بن حراش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اس چارپائی والے کو سنا، وہ کہہ رہا تھا،مجھے کوئی حرج نہیں، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، البتہ اگر تم لڑو گے تو میں ضرور اپنے گھر میں داخل ہو جاؤں گا اور البتہ اگر مجھے پر داخل ہوا گیا تو میں ضرور کہوں گا کہ آؤ اور لوٹ میرے گناہ کے ساتھ اور اپنے گناہ کے ساتھ۔

تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 23307، مجمع الزوائد،ہیثمی: 7/301۔ علامہ ہیثمی اور شیخ شعیب نے کہا کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے ایک کے کہ وہ راوی مبہم ہے۔»

حكم: مبہم
حدیث نمبر: 277
Save to word اعراب
انا مبارك بن فضالة، عن الحسن، عن اسيد بن المتشمس بن معاوية، قال: غزونا مع ابي موسى اصبهان، فما لبث ان فتحها، ثم لم يلبث ان رجع ورجعنا معه، فنزلنا منزلا وكان جارا فيه عقيل، فقال: من رجل ينزل لينته؟ فقمت إليها فانزلتها، فقال: الا احدثكم حديثا كان يحدثناه محمد صلى الله عليه وسلم؟ قلنا: بلى، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بين يدي الساعة الهرج"، فقلنا: وما الهرج؟ قال:" القتل"، قلنا: اكثر مما نقتل كل عام من الكفار، إنا لنقتل في الواحد كذا وكذا، فقال:" والله ما هو بقتلكم الكفار، ولكن قتل يكون سلم معشر اهل الإسلام حتى يقتل الرجل جاره، وابن عمه، ويقتل اخاه، ويقتل اباه"، قال: فابلسنا حتى ما يبدي احد كاحله، فنظر بعضنا إلى بعض، وقلنا: كيف يقتل الرجل منا جاره، وابن عمه، واباه للمودة التي جعل الله في قلوبنا يومئذ، وعلمنا ان صاحبنا لم يعد بنا، فقلنا: ارايت عقولنا اليوم، اهي معنا يومئذ؟ قال:" لا والله لينزغ عقولا كاهل ذلك الزمان، وكلف له هنا من الناس، نحسب اكثرهم انهم على شيء وليسوا على شيء، وايم الله، لقد خشيت ان يدركني وإياكم، وايم الله، لئن ادركني ما اعلم لي ولكم منها مخرجا فيما عهد إلينا صلى الله عليه وسلم إلا ان نخرج منها كما دخلناها"، قال: قال الحسن: اي سالمين.أنا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ الْمُتَشَمِّسِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ أَبِي مُوسَى أَصْبَهَانَ، فَمَا لَبِثَ أَنَّ فَتَحَهَا، ثُمَّ لَمْ يَلْبَثْ أَنَّ رَجَعَ ورَجَعْنَا مَعَهُ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا وَكَانَ جَارًا فِيهِ عُقَيْلٌ، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ يُنْزِلُ لِينَتَهُ؟ فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَأَنْزَلْتُهَا، فَقَالَ: أَلا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا كَانَ يُحَدِّثُنَاهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، فَقُلْنَا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ"، قُلْنَا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ كُلَّ عَامٍ مِنَ الْكُفَّارِ، إِنَّا لَنَقْتُلُ فِي الْوَاحِدِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:" وَاللَّهِ مَا هُوَ بِقَتْلِكُمُ الْكُفَّارَ، وَلَكِنْ قَتْلٌ يَكُونُ سِلْمَ مَعْشَرِ أَهْلِ الإِسْلامِ حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ، وَابْنَ عَمِّهِ، وَيَقْتُلَ أَخَاهُ، وَيَقْتُلَ أَبَاهُ"، قَالَ: فَأَبْلَسْنَا حَتَّى مَا يُبْدِي أَحَدٌ كَاحِلَهُ، فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ، وَقُلْنَا: كَيْفَ يَقْتُلُ الرَّجُلُ مِنَّا جَارَهُ، وَابْنَ عَمِّهِ، وَأَبَاهُ لِلْمَوَدَّةِ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِنَا يَوْمَئِذٍ، وَعَلِمْنَا أَنَّ صَاحِبَنَا لَمْ يَعُدْ بِنَا، فَقُلْنَا: أَرَأَيْتَ عُقُولَنَا الْيَوْمَ، أَهِيَ مَعَنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" لا وَاللَّهِ لَيَنْزِغُ عُقُولا كَأَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، وَكُلِّفَ لَهُ هُنَا مِنَ النَّاسِ، نَحْسَبُ أَكْثَرَهُمْ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ، وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يُدْرِكَنِي وَإِيَّاكُمْ، وَايْمُ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَنِي مَا أَعْلَمُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا"، قَالَ: قَالَ الْحَسَنُ: أَيْ سَالِمِينَ.
اسید بن متشمس بن معاویہ کا بیان ہے کہ ہم نے ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر اصبہان کی جنگ لڑی، تھوڑی دیر بعد ہی انہوں نے اسے فتح کر لیا، پھر وہ کچھ وقت کے بعد لوٹے اور ہم بھی ان کے ساتھ لوٹے، ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ ڈالا اور اس میں عقیل پڑوسی تھا۔ (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ)نے کہا، کون اس کے تکیے کو اتارے گا؟ پس میں اس کی طرف کھڑا ہوا اور اتارا۔ انہوں نے کہا کہ کیا میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کیا کرتے تھے؟ ہم نے کہا کہ کیوں نہیں، اللہ آپ پر رحم فرمائے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان فرمایا: بے شک قیامت سے پہلے ہرج ہوگا۔ ہم نے کہا کہ ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قتل و غارت۔ ہم نے کہا کہ ہر سال کفار کی اکثریت قتل کر دی جاتی ہے۔ بے شک ہم ایک سال میں اتنے اتنے کافر مار گراتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! تمہارا کافروں کو قتل کرنا وہ ہرج نہیں ہے، بلکہ وہ قتل جو صلح ہوگا (مراد ہے)اے اہل اسلام کی جماعت! یہاں تک کہ آدمی اپنے پڑوسی، چچا زاد،ا پنے بھائی اور اپنے باپ کو قتل کرے گا، کہاکہ ہم حیران و ششدر رہ گئے۔ یہاں تک کہ کوئی ایک اپنی آنکھ نہیں کھول رہا تھا، سو ہمارے بعض نے بعض کی طرف دیکھا اور ہم نے کہا: آدمی کیسے اپنے بھائی، چچا زاد اور باپ کو قتل کرے گا، اس محبت و مود ت کی وجہ سے جو اس دن اللہ نے ہمارے دلوں میں ڈالی تھی اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے صاحب نے ہم سے جھوٹ نہیں بولا، ہم نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال کہ جو آج ہماری عقلیں ہیں کیا یہ اس دن ہمارے ساتھ ہوں گی؟ فرمایا کہ نہیں، اللہ کی قسم! وہ (شیطان)ان کی عقلوں میں اس زمانے والوں کی طرح پھوٹ ڈال دے گا اور لوگ وہاں اسی کے مکلف بنیں گے۔ ہم سمجھیں گے کہ بے شک وہ کس چیز پر ہیں اور وہ کسی چیز پر نہیں ہوں گے۔ اور اللہ کی قسم! یقینا میں ڈرتا ہوں کہ مجھے اور خاص تمہیں وہ (زمانہ)پا لے اور اللہ کی قسم! البتہ اگر مجھے اور خاص تمہیں اس (زمانے)نے پا لیا تو میں اپنے اور تمہارے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا، اس چیز میں جس کا ہم سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا، ہاں اس سے اس طرح نکل سکتے ہیں، جس طرح کہ داخل ہوئے تھے کہا کہ حسن نے کہا کہ یعنی صلح جوئی کی حالت میں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 3959، مسند احمد (الفتح الرباني)24/10۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 278
Save to word اعراب
انا مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي صعصعة، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يوشك ان يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال، ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن".أنا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ مسلمانوں کا بہترین مال، بکریاں ہوں گی، وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے قطرات کے گرنے کی جگہوں پر ان کے پیچھے چلے گا، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگے گا۔

تخریج الحدیث: «[أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 19، 3300، 3600، 6495، 7088، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1772، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5955، 5958، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5039، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4267، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3980، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11189، 11426، 11567، 11720، والحميدي فى «مسنده» برقم: 750، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 983، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 993، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38271]»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 279
Save to word اعراب
انا معمر، عن سالم، عن إسحاق بن راشد، عن عمرو بن وابصة الاسدي، عن ابيه، قال: إني لبالكوفة في داري إذ سمعت على باب الدار: السلام عليكم، فقلت: وعليكم السلام، فلج فلما دخل، إذا هو عبد الله بن مسعود، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، اي ساعة زيارة هذه، وذلك في بحر الظهيرة؟ قال: طال علي النهار، فذكرت من اتحدث إليه، قال: فجعل يحدثني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدثه، ثم انشا يحدثني، قال: سمعته يقول: " تكون فتنة، النائم فيها خير من المضطجع، والمضطجع فيها خير من القاعد، والقاعد فيها خير من القائم، والقائم خير من الماشي، والماشي خير من الراكب، والراكب خير من الجاري، قتلاها كلها في النار"، قلت: يا رسول الله، ومتى ذاك؟ قال:" ذاك الهرج"، قال: قلت: ومتى ايام الهرج؟ قال:" حين لا يامن الرجل جليسه"، قال: قلت: فبم تامرني إذا ادركت ذاك؟ قال:" اكفف نفسك ويديك وادخل دارك"، قلت: يا رسول الله، ارايت إن دخل علي داري؟ قال:" فادخل بيتك"، قال: قلت: افرايت إن دخل علي بيتي؟ قال:" فادخل مسجدك، ثم اصنع هكذا، ثم قبض بيمينه على الكوع، وقل ربي الله حتى تقتل على ذلك".أنا مَعْمَرٌ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَابِصَةَ الأَسَدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: إِنِّي لَبِالْكُوفَةِ فِي دَارِي إِذْ سَمِعْتُ عَلَى بَابِ الدَّارِ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَقُلْتُ: وَعَلَيْكُمُ السَّلامُ، فَلَجَّ فَلَمَّا دَخَلَ، إِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَيُّ سَاعَةِ زِيَارَةٍ هَذِهِ، وَذَلِكَ فِي بَحْرِ الظَّهِيرَةِ؟ قَالَ: طَالَ عَلَيَّ النَّهَارُ، فَذَكَرْتُ مَنْ أَتَحَدَّثُ إِلَيْهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُحَدِّثُهُ، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " تَكُونُ فِتْنَةٌ، النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ، وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ، وَالْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ الرَّاكِبِ، وَالرَّاكِبُ خَيْرٌ مِنَ الْجَارِي، قَتْلاهَا كُلُّهَا فِي النَّارِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَتَى ذَاكَ؟ قَالَ:" ذَاكَ الْهَرْجُ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمَتَى أَيَّامُ الْهَرْجِ؟ قَالَ:" حِينَ لا يَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ"، قَالَ: قُلْتُ: فَبِمَ تَأْمُرُنِي إِذَا أَدْرَكْتُ ذَاكَ؟ قَالَ:" اكْفُفْ نَفْسَكَ وَيَدَيْكَ وَادْخُلْ دَارَكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ دَارِي؟ قَالَ:" فَادْخُلْ بَيْتَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي؟ قَالَ:" فَادْخُلْ مَسْجِدَكَ، ثُمَّ اصْنَعْ هَكَذَا، ثُمَّ قَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى الْكُوعِ، وقُلْ رَبِّيَ اللَّهُ حَتَّى تُقْتَلَ عَلَى ذَلِكَ".
وابصہ اسدی نے بیان کیا کہ بے شک میں کوفے میں اپنے گھر کے اندر تھا کہ میں نے سنا: السلام علیکم (کیا میں داخل ہو سکتا ہوں؟)میں نے کہا کہ وعلیکم السلام (داخل ہوجائیں)۔ جب وہ اندر آئے تو اچانک عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے، میں نے کہا کہ اے ابو عبد لرحمن! ملاقات کا یہ کون سا وقت ہے؟ اور وہ دوپہر کا وقت تھا۔ فرمایا کہ دن مجھ پر لمبا ہو گیا،میں نے یاد کیا کہ کس کے ساتھ باتیں کروں۔ کہا کہ وہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرنے لگے اورمیں انہیں بیان کرنے لگا۔ پھر وہ شروع ہوئے مجھے حدیث بیان کرنے لگے، کہاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ایک فتنہ ہوگا، سونے والا اس میں لیٹنے والے سے بہتر ہوگا، لیٹنے والا اس میں بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا، بیٹھنے والا اس میں کھڑے سے بہتر ہوگا، کھڑا چلنے والے سے بہتر ہوگا، پیدل چلنے والا، سوار سے بہتر ہوگا، سوار دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، اس (فتنے)کے سب مقتولین آ گ میں ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اور یہ کب ہوگا؟ فرمایا: وہ ھرج (قتل)کے ایام میں ہوگا۔ کہا کہ میں نے کہا اور ھرج کے ایام کب ہوں گے؟ فرمایا: جب آدمی اپنے ہم نشین سے محفوظ و مامون نہ ہوگا۔کہا کہ میں نے کہا: اگر میں وہ زمانہ پالوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جان اور اپنے ہاتھوں کو روک لینا اور اپنے محلے میں داخل ہوجانا۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہے، اگر وہ مجھ پر میرے محلے میں داخل ہوگیا تو؟ کہا کہ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ اگر مجھ پر میرے گھر میں داخل ہوا گیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی مسجد میں داخل ہوجانا،پھر اسی طرح کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ کلائی پر بند کیا۔ اور کہا: میرا رب اللہ ہی ہے، یہاں تک کہ تو اسی پر قتل کر دیاجائے۔

تخریج الحدیث: «مسند أحمد (الفتح الرباني)24/11، مجمع الزوائد، هیثمي: 7/301، مستدرك حاکم: 4/427، سنن ابي داؤد: 4256۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 280
Save to word اعراب
اخبرني اخبرني يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، ان رجلا اخبره، عن ابيه يحيى، انه كان مع ابن عمر، فقال له ابن عمر: " في الفتنة، لا ترون القتل شيئا".
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يتناجى اثنان دون واحد".
أَخْبَرَنِي أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، أَنَّ رَجُلا أَخْبرَهُ، عَنْ أَبِيهِ يَحْيَى، أَنَّهُ كَانَ مَعَ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: " فِي الْفِتْنَةِ، لا تَرَوْنَ الْقَتْلَ شَيْئًا".
وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ".
محمد بن یحییٰ بن حیان نے بیان کیا کہ بے شک ایک آدمی نے اسے اس کے والد یحییٰ سے بیان کیا کہ بے شک وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا: تم فتنے میں قتل کو کوئی چیز نہیں سمجھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: دو آدمی، ایک کو چھوڑ کر، باہم سرگوشی نہ کریں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1817، 1818، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1820، 1822، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581، 582، 584، 586، 587، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1091، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4828، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2749، 2750، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2695، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5975، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4536، والحميدي فى «مسنده» برقم: 659، 660، 661، 679، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 384، 476، والطبراني فى «الصغير» برقم: 785
صحیح بخاري: 6288، مسند أحمد: 2/9، 43، 45، موطا: 4/407، سنن ابوداؤد، الأدب: 13/119، مسند طیالسي: 2/50، طبراني صغیر: 2/9، صحیح ابن حبان: 1/482، الأدب المفرد، بخاري: 2/601، 602۔ 555، سنن بیهقي: 3/232، 544، تاریخ بغداد: 11/265، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/128، 364، المقاصد الحسنۃ سخاوی: 44۔»

حكم: صحیح

Previous    24    25    26    27    28    29    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.