وعن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ترك صلاة يعني العصر، حتى تفوته، فكانما وتر اهله وماله". وكان ابن عمر يصليها والشمس بيضاء نقية.وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ تَرَكَ صَلاةً يَعْنِي الْعَصْرَ، حَتَّى تَفُوتَهُ، فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ". وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّيهَا وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا:”جس نے نماز عصر چھوڑی حتی کہ وہ رہ گئی تو گویا اس کے اہل اور اس کا مال برباد ہو گیا۔“ اور عبداللہ بن عمر نماز عصر پڑھتے تھے جبکہ سورج صاف چمک رہا ہوتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، مواقيت الصلاة، باب اثم من فاتته العصر، رقم الحديث: 552، صحيح مسلم، المساجد، باب التغليظ فى تفويت صلوة العصر، رقم الحديث: 626»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”رات کی نماز دو دو رکعتیں ہے، جب تجھے طلوع فجر کا خدشہ محسوس ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، الوتر، باب ما جاء فى الوتر، رقم الحديث: 990، صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثنيٰ مثنيٰ والوتر ركعة من آخر الليل، رقم الحديث: 749»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، الديات، باب ’’ومن احياها‘‘، رقم الحديث: 6874، صحيح مسلم، الايمان، باب قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم: ’’من حمل علينا السلاح فليس منا‘‘، رقم الحديث: 98»
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ايوب بن عتبة، عن يحيى، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم تبرز بين لبنتين وهو مستقبل القبلة وهو على ظهر بيت"، قال ايوب: كانه فجئه.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَرَّزَ بَيْنَ لَبِنَتَيْنِ وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْقِبْلَةَ وَهُوَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ"، قَالَ أَيُّوبُ: كَأَنَّهُ فَجِئَهُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو اینٹوں پر قضائے حاجت کرتے دیکھا جبکہ آپ قبلہ رخ تھے اور وہ (ابن عمر) گھر کی چھت پر تھے۔ ایوب رحمہ اللہ کہتے ہیں: گویا انہوں نے اچانک (بلاارادہ) آپ علیہ السلام کو دیکھا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، الوضوء، باب من تبرز على لبنتين، رقم الحديث: 145، صحيح مسلم، الطهاره، باب الاستطابة، رقم الحديث: 266، عن واسع بن حبان عن ابن عمر»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا،ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! رات کی نماز کس طرح (پڑھنی) ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”دو دو (رکعات) جب تجھے صبح طلو ع ہونے کا خدشہ محسوس ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو تیری (پچھلی ساری) نماز کو طاق بنا دے گا۔“
حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا ابن عيينة، عن ايوب بن موسى، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني قد اتخذت خاتما، وإني نقشت فيه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلا ينقش احد مثله".حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي قَدِ اتَّخَذْتُ خَاتَمًا، وَإِنِّي نَقَشْتُ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلا يَنْقُشْ أَحَدٌ مِثْلَهُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں ”محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ نقش کروایا ہے۔ لہٰذا اس طرح کوئی بھی انگوٹھی میں تحریر نہ لکھوائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، اللباس، باب قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لا ينقش… الخ، رقم الحديث: 5877، صحيح مسلم، اللباس والزينة، باب لبس النبى صلى اللّٰه عليه وسلم خاتما من ورق، رقم الحديث: 2992، عن انس بن مالك رضي اللّٰه عنه»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منڈیوں سے باہر) سامان لانے والے کو ملنے سے منع کیا یہاں تک کہ وہ بازاروں میں اترجائے اور آپ نے قیمت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مال کی بولی دینے سے منع کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، البيوع، باب النهي عن تلقي الركبان… الخ، رقم الحديث: 2165، صحيح مسلم، البيوع، باب تحريم تلقي الجلب، رقم الحديث: 1517»
حدثنا عبد الغفار بن عبيد الله، حدثنا صالح، عن نافع، قال: كنت مع عبد الله وهو محرم، فوجد بردا، فالقيت عليه برنسا، فقال: ما هذا؟ قلت: برنس، فقال: الم تعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،" نهى عن البرنس".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَهُو مُحْرِمٌ، فَوَجَدَ بَرْدًا، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ بُرْنُسًا، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قُلْتُ: بُرْنُسٌ، فَقَالَ: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" نَهَى عَنِ الْبُرْنُسِ".
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تک جبکہ وہ احرام کی حالت میں تھے، انہوں نے ایک چادر لی تو میں نے ان کو ٹوپی پہنا دی تو آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: ٹوپی ہے تو آپ نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (محرم کو) ٹوپی پہننے سے منع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد، المناسك، باب ما يلبس المحرم، رقم الحديث: 1828» محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حدثنا محمد بن يزيد بن سنان، حدثنا يزيد، حدثنا ابو رزين، عن ابي عبيد حاجب سليمان، عن نافع، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " اللهم بارك لنا في مكتنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في شامنا، وبارك لنا في يمننا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا"، فقال رجل: يا رسول الله، العراق ومصر؟ فقال:" هناك ينبت قرن الشيطان، وثم الزلازل والفتن".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو رَزِينٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ حَاجِبِ سُلَيْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَكَّتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْعِرَاقُ وَمِصْرُ؟ فَقَالَ:" هُنَاكَ يَنْبُتُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، وَثَمَّ الزَّلازِلُ وَالْفِتَنُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مکہ میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت فرما اور ہمارے لیے یمن میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت پیدا فرما۔“ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!عراق اور مصر؟ تو آپ نے فرمایا: ”وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اوروہاں زلزلے اورفتنے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «حلية الاولياء: 6/133، عن سالم عن ابيه، مجمع الزوائد: 3/305، رقم الحديث: 5815، السلسلة الصحيحه: 5/302، رقم الحديث: 2246»
حدثنا عبيد بن الصباح الخزاز، عن إسرائيل، عن المعلى بن المسيب، عن إبراهيم بن قعيص، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سيكون بعدي امراء، فمن صدقهم بكذبهم، واعانهم على ظلمهم فليس مني، ولست منه، ولا يرد على الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني، وانا منه، وسيرد على الحوض".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْخَزَّازُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قُعَيْصٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلا يَرِدُ عَلَى الْحَوْضِ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَى الْحَوْضِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد امراء ہوں گے جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر تعاون کیا وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں ا س سے ہوں اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آسکے گا اور جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق نہ کی اور ان کے ظلم پر ان سے تعاون نہ کیا تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے حوض پرآئے گا۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 191/5، رقم الحديث: 5702، وقال احمد شاكر: اسناده صحيح، مسند البزار: 12/230، رقم الحديث: 5950، مجمع الزوائد: 5/246، رقم الحديث: 9262، سنن ترمذي، السفر، باب ما جاء فى فضل الصلاة، رقم الحديث: 614» ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں ابراہیم بن قعیس ہے اسے ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے، لیکن ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن غریب‘‘ اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔