سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام میں کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھانا کھلا، اور ہر جاننے والے اور ہر اجنبی کو سلام کر۔“[صحيح بخاري: 2812، صحيح مسلم: 39]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو، اور کہو: «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ»“”اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔ (کیونکہ اس نے فرشتہ دیکھا ہے۔)“ اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو کہو: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»”میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔“ اصل حدیث میں ان باتوں کا حکم ہے اور الفاظ مصنف کے اپنے ہیں۔ [صحيح بخاري: 3303، صحيح مسلم: 2729]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم رات کو کتوں کے بھونکنے اور گدھے کے ہینگنے کی آواز سنو تو اس سے اللہ کی پناہ طلب کرو کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔“[اسناده حسن، سنن ابي داؤد: 5103، مسند احمد: 306/3]
اللٰهم فايما مؤمن سببته، فاجعل ذلك له قربة إليك يوم القيامة اَللّٰهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ القِيَامَةِ
”اے اللہ! جس مؤمن کو بھی میں نے برا بھلا کہا ہے تو قیامت کے دن اس کے لئے اسے اپنی قربت کا ذریعہ بنا۔“ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: «فجعلهاله زكاة و رحمة»[صحيح بخاري: 6361، صحيح مسلم: 2601]
جب تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہو تو وہ یوں کہے: ”میں فلاں کے متعلق گمان کرتا ہوں (کہ وہ اچھا ہے) اور اللہ تعالیٰ اس کا حساب لینے والا ہے میں کسی کو اللہ کے ہاں پاک قرار نہیں دیتا میں فلاں کو ایسا ایسا گمان کرتا ہوں بشرطیکہ وہ اسے اچھی طرح جانتا ہو۔“[صحيح مسلم: 3000]
اللٰهم لا تؤاخذني بما يقولون، واغفر لي ما لا يعلمون، واجعلني خيرا مما يظنون اَللّٰهُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لَا يَعْلَمُونَ، وَاجْعَلْنِي خَيْرًا مِمَّا يَظُنُّونَ
”اے اللہ! جو یہ کہہ رہے ہیں اس وجہ سے تو میرا مواخذہ نہ کرنا، اور جو یہ نہیں جانتے وہ میرے لئے معاف فرما دے (اور جو یہ گمان کرتے ہیں تو مجھے اس سے بہتر بنا دے)“[اسناده ضعيف، الادب المفرد للبخاري: 761، شعب الايمان للبيهقي 4/ 228 ح4876] جس نے اس حدیث کو صحیح یا حسن کہا ہے وہ غلطی پر ہے۔
لبيك اللٰهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك لَبَّيْكَ اللَٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
”حاضر ہوں میں اے اللہ! حاضر ہوں، حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناً تمام تعریفات، اور نعمت تیرے لئے ہیں اور بادشاہت بھی تیرے لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔“[صحيح بخاري: 1549، صحيح مسلم: 1184]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا، آپ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے، تو کسی چیز (یہاں کسی چیز سے مراد خم دار چھڑی ہے۔) سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور «اللهُ اَكْبَرُ» کہتے۔“[صحيح بخاري: 1613]
ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“[اسناده حسن، سنن ابي داؤد: 1892، مسند احمد: 411/3، السنن الكبري للنسائي: 3943]