سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وصیت کے مسائل
حدیث نمبر: 3218
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا الحكم، حدثنا الوليد، قال: اخبرني ابن ثوبان، عن ابيه، عن مكحول، قال: هذه وصية ابي الدرداء.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: هَذِهِ وَصِيَّةُ أَبِي الدَّرْدَاءِ.
مکحول رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ (مذکورہ بالا) وصیت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3229]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3219
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا جعفر بن عون، حدثنا ابو حيان التيمي، عن ابيه، قال: كتب الربيع بن خثيم وصيته: بسم الله الرحمن الرحيم:"هذا ما اوصى به الربيع بن خثيم واشهد الله عليه، وكفى بالله شهيدا، وجازيا لعباده الصالحين ومثيبا باني رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، وإني آمر نفسي ومن اطاعني ان نعبد الله في العابدين، ونحمده في الحامدين، وان ننصح لجماعة المسلمين".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَتَبَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ وَصِيَّتَهُ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ:"هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ وَأَشْهَدَ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، وَجَازِيًا لِعِبَادِهِ الصَّالِحِينَ وَمُثِيبًا بِأَنِّي رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَإِنِّي آمُرُ نَفْسِي وَمَنْ أَطَاعَنِي أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ فِي الْعَابِدِينَ، وَنَحْمَدَهُ فِي الْحَامِدِينَ، وَأَنْ نَنْصَحَ لِجَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ".
ابوحیان التیمی نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ربیع بن خثیم نے ایک وصیت (اس طرح) لکھی: بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ ربیع بن خثیم کی وصیت ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں اور الله کی گواہی کافی ہے جو اپنے نیک بندوں کو جزا اور ثواب سے نوازنے والا ہے، میں اللہ پر راضی ہوں اس کے رب ہونے میں اور اسلام پر دین ہونے میں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی ہونے میں، اور میں اپنے نفس کو اور جو میری اطاعت کرے اس کو حکم دیتا ہوں کہ ہم عبادت گزاروں کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، حمد و ثنا کرنے والوں میں اس کی حمد کریں، اور مسلم جماعت کے ساتھ خیر خواہی کریں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3230]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوحیان کا نام یحییٰ بن سعید بن حیان ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 287/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3214 سے 3219)
ان تمام آثار سے وصیت کرنے کا طریقہ معلوم ہوا، بسم اللہ اور کلمۂ شہادت سے شروع کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر پہلے اپنے اہل و عیال کو اسلام و ایمان پر قائم و دائم، ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے، اگر قرض یا امانت وغیرہ ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے، کسی نیک کام میں خرچ کرنے کی تحدید کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
5. باب مَنْ لَمْ يَرَ الْوَصِيَّةَ في الْمَالِ الْقَلِيلِ:
5. تھوڑے سے مال میں بعض کے نزدیک وصیت کی ضرورت نہیں
حدیث نمبر: 3220
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن هشام، عن ابيه:"ان عليا دخل على مريض، فذكروا له الوصية، فقال علي: قال الله: إن ترك خيرا سورة البقرة آية 180، ولا اراه ترك خيرا". قال حماد: فحفظت انه ترك اكثر من سبع مائة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ:"أَنَّ عَلِيًّا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ، فَذَكَرُوا لَهُ الْوَصِيَّةَ، فَقال عَلِيٌّ: قَالَ اللَّهُ: إِنْ تَرَكَ خَيْرًا سورة البقرة آية 180، وَلَا أُرَاهُ تَرَكَ خَيْرًا". قَالَ حَمَّادٌ: فَحَفِظْتُ أَنَّهُ تَرَكَ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِ مِائَةٍ.
ہشام نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے اور لوگوں نے اس کی وصیت کا تذکرہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: (اگر مال چھوڑے ......) اور میری رائے ہے کہ اس نے مال چھوڑا ہی نہیں، حماد نے کہا: مجھے یاد ہے اس نے سات سو سے زیادہ چھوڑے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى علي، [مكتبه الشامله نمبر: 3231]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل ہے۔ تخریج آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى علي
حدیث نمبر: 3221
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن كناسة، حدثنا هشام، عن ابيه، قال:"دخل علي بن ابي طالب على رجل من قومه يعوده، فقال: اوصي؟ قال: لا، لم تدع مالا، فدع مالك لولدك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كُنَاسَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَى رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ يَعُودُهُ، فَقَالَ: أُوصِي؟ قَالَ: لا، لَمْ تَدَعْ مَالًا، فَدَعْ مَالَكَ لِوَلَدِكَ".
ہشام نے اپنے والد سے روایت کیا: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے ایک آدمی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو اس نے کہا: مجھے وصیت کرنی ہو گی؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، تم کوئی مال چھوڑ کر نہیں جا رہے، اپنے (تھوڑے سے) مال کو اپنی اولاد کے لئے رہنے دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3232]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابن کناسہ کا نام محمد بن عبداللہ بن عبدالاعلیٰ بن کناسہ ہے، اور ہشام: ابن عروہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10992]، [عبدالرزاق 16351]، [البيهقي 270/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3219 سے 3221)
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک تھوڑے سے مال میں وصیت کی ضرورت نہیں۔
مال جب بہت زیادہ ہو تب ہی وصیت کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب في الذي يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ:
6. ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 3222
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو زيد، حدثنا شعبة، عن منصور، عن إبراهيم:"في رجل اوصى والورثة شهود مقرون، فقال: لا يجوز". قال ابو محمد: يعني: إذا انكروا بعد.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ:"فِي رَجُلٍ أَوْصَى وَالْوَرَثَةُ شُهُودٌ مُقِرُّونَ، فَقَالَ: لَا يَجُوزُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي: إِذَا أَنْكَرُوا بَعْدُ.
منصور نے ابراہیم رحمہ اللہ سے روایت کیا، کوئی آدمی (ثلث سے زیادہ) وصیت کرے اور اس کے وارثین شاہد ہوں اور اس کا اقرار کریں؟ ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: (ایسی وصیت) جائز نہیں ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں وہ ناپسند کریں تو ایسی وصیت کی تنفیذ نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3233]»
ابرا ہیم رحمہ اللہ تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوزید کا نام سعید بن الربیع ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 389]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
حدیث نمبر: 3223
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، قال: سالت الحكم، وحمادا:"عن الاولياء يجيزون الوصية، فإذا مات لم يجيزوا؟ قالا: لا يجوز".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ الحَكَمَ، وَحَمَّادًا:"عَنِ الْأَوْلِيَاءِ يُجِيزُونَ الْوَصِيَّةَ، فَإِذَا مَاتَ لَمْ يُجِيزُوا؟ قَالَا: لَا يَجُوزُ".
شعبہ نے کہا: میں نے حکم اور حماد سے اولیاء (وارثین) کے بارے میں پوچھا کہ وہ وصیت کی اجازت دیتے ہیں اور جب (آدمی) مر جائے تو وصیت نہیں مانتے؟ دونوں نے کہا: (یہ) جائز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 3234]»
حکم بن عتبہ اور حماد بن ابی سلیمان تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10777]، [ابن منصور 391]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3221 سے 3223)
یعنی ثلث سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة
حدیث نمبر: 3224
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن داود بن ابي هند، عن عامر، عن شريح:"في الرجل يوصي باكثر من ثلثه، قال: إن اجازته الورثة، اجزناه، وإن قالت الورثة: اجزناه، فهم بالخيار إذا نفضوا ايديهم من القبر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ شُرَيْحٍ:"فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنْ ثُلُثِهِ، قَالَ: إِنْ أَجَازَتْهُ الْوَرَثَةُ، أَجَزْنَاهُ، وَإِنْ قَالَتِ الْوَرَثَةُ: أَجَزْنَاهُ، فَهُمْ بِالْخِيَارِ إِذَا نَفَضُوا أَيْدِيَهُمْ مِنْ الْقَبْرِ".
عامر (شعبی) رحمہ اللہ سے مروی ہے، (قاضی) شریح نے کہا: کوئی آدمی ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے، اگر اس کے وارثین اجازت دیں تو ہم بھی اس کی اجازت دیں گے، اور اگر وارثین کہیں کہ ہم نے اس کی اجازت دی تب بھی مٹی دینے کے بعد انہیں اختیار ہے۔ (یعنی چاہیں تو برقرار رکھیں اور چاہیں تو رفض کر دیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى شريح، [مكتبه الشامله نمبر: 3235]»
قاضی شریح تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10772]، [عبدالرزاق 16449]، [ابن منصور 388]، [اخبار القضاة 264/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى شريح
حدیث نمبر: 3225
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو نعيم، حدثنا المسعودي، عن ابي عون، عن القاسم:"ان رجلا استاذن ورثته ان يوصي باكثر من الثلث، فاذنوا له، ثم رجعوا فيه بعد ما مات، فسئل عبد الله عن ذلك، فقال: هذا التكره لا يجوز".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ:"أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ وَرَثَتَهُ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ، فَأَذِنُوا لَهُ، ثُمَّ رَجَعُوا فِيهِ بَعْدَ مَا مَاتَ، فَسُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذَا التَّكَرُّهُ لَا يَجُوزُ".
قاسم سے مروی ہے، ایک آدمی نے اپنے وارثین سے پوچھا کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وہ وصیت کر دے، وارثین نے اس کو اجازت دے دی، پھر انہوں نے اس کی موت کے بعد اجازت سے رجوع کر لیا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ زبردستی جائز نہیں ہے۔ (یعنی ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت میں زبردستی کرنا جائز نہیں ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 3236]»
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبہ المسعودی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابونعیم کا نام فضل بن دکین ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10781]، [مجمع الزوائد 7183]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
حدیث نمبر: 3226
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن هشام، عن الحسن:"في الرجل يوصي باكثر من الثلث فرضي الورثة، قال: هو جائز". قال ابو محمد: اجزناه يعني في الحياة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ:"فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ فَرَضِيَ الْوَرَثَةُ، قَالَ: هُوَ جَائِزٌ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَجَزْنَاهُ يَعْنِي فِي الْحَيَاةِ.
ہشام سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے ایسے آدمی کے بارے میں کہا جو ثلث (تہائی) سے زیادہ وصیت کرے اور وارثین اس پر راضی ہوں، کہا: یہ جائز ہے۔ امام دارمی ابو محمد رحمہ اللہ نے کہا: جائز ہے لیکن اس کی زندگی میں ہی (مرنے کے بعد نہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3237]»
ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل ہے، اور ہشام: ابن حسان ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10775]، [عبدالرزاق 16452]، [سعيد بن منصور 392، 393]، [طبراني 271/9، 9161]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3223 سے 3226)
اپنے مال میں ایک ثلث تک کی وصیت کسی نیک کام کے لئے کرنا جائز ہے، ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے، جیسا کہ اگلے باب میں تفصیل سے آ رہا ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ثلث سے زیادہ خرچ کرے تو یہ جائز ہے، اگر فوت ہو جائے اور وارثین راضی ہوں تب بھی ایسی وصیت کی تنفیذ ہوگی، اگر راضی نہ ہوں تو تنفیذ روک دی جائے گی۔
مذکور بالا آثار و اقوال کا خلاصہ یہی ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
7. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ:
7. ایک تہائی کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 3227
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن يونس بن جبير، عن محمد بن سعد، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه وهو بمكة، وليس له إلا ابنة، فقلت له:"إنه ليس لي إلا ابنة واحدة، فاوصي بمالي كله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا، قلت: فاوصي بالنصف؟ فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: لا، قال: فاوصي بالثلث؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الثلث، والثلث كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ وَهُوَ بِمَكَّةَ، وَلَيْسَ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ:"إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
محمد بن سعد (ابن ابی وقاص) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ان کے پاس تشریف لائے، ان کی ایک ہی لڑکی تھی، سیدنا سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میری صرف ایک ہی لڑکی ہے، میں اپنے کل مال کی (کار خیر کے لئے) وصیت کئے دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر آدھے مال کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: پھر ثلث کی وصیت کرتا ہوں؟ سیدنا سعد رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی گرچہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3238]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 56، 6733]، [مسلم 1628]، [أبوداؤد 2764]، [ترمذي 2116]، [نسائي 3638]، [ابن ماجه 2708]، [أحمد 137/1]، [أبويعلی 727]، [ابن حبان 4249]، [الحميدي 66]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3226)
پیچھے گذر چکا ہے کہ مال اگر زیادہ ہے تو اچھے کاموں کے لئے خرچ کی وصیت کرنا مستحب ہے۔
قربان جائیں اسلامی تعلیمات کے، ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ کل مال راہِ الٰہی میں خرچ کر دیں یا خرچ کر دینے کی وصیت کریں، بلکہ اس کارِ خیر کو محدود فرما دیا، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی مال خرچ کرنے کی اجازت دی اور سنہرے حرفوں سے لکھے جانے والی نصیحتیں فرمائیں کہ اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو گے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ وہ تنگدست رہیں اور لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔
سبحان اللہ العظیم! کیا تعلیماتِ نبویہ ہیں۔
مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.