سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
33. باب لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى:
33. کسی کے لئے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یونس بن متیٰ علیہ السلام سے بہتر ہوں
حدیث نمبر: 2781
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يقولن احدكم: انا خير من يونس بن متى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعْيَمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی ہرگز نہ کہے کہ میں یونس بن متیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2788]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3412]، [أبويعلی 5278، وله شاهد عند البخاري 4631] و [مسلم 2376] و [أبويعلی 6793]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2780)
یونس علیہ السلام ایک نبی تھے جن کا ذکر قرآن پاک میں کئی جگہ آیا ہے، اور آپ کو ذوالنون (مچھلی والا) بھی کہا گیا ہے: « ﴿وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ﴾ [الصافات: 139] » اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق احادیث میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے سردار ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بہتر کہنا جائز تو ہوا لیکن اس طرح کہا جائے کہ کسی بھی نبی کی تحقیر و تنقیص نہ ہو، سب کا ادب ملحوظِ خاطر رہے، یہ رسولِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یونس علیہ السلام پر فضیلت دیئے جانے سے منع فرمایا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
34. باب: «عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ» :
34. ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے
حدیث نمبر: 2782
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن جعفر المدائني، حدثنا شعبة، عن سعيد بن ابي بردة، عن ابيه، عن ابي موسى الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "على كل مسلم صدقة"، قالوا: يا رسول الله، فإن لم يستطع او لم يفعل؟، قال:"يعتمل بيديه فياكل منه ويتصدق"، قالوا: افرايت إن لم يفعل؟، قال:"يعين ذا الحاجة الملهوف"، قالوا: افرايت إن لم يفعل؟، قال:"يامر بالخير"، قالوا: افرايت إن لم يفعل؟، قال:"يمسك عن الشر، فإنها له صدقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟، قَالَ:"يَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ فَيَأْكُلُ مِنْهُ وَيَتَصَدَّقُ"، قَالُوا: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟، قَالَ:"يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ"، قَالُوا: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟، قَالَ:"يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ"، قَالُوا: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟، قَالَ:"يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا لَهُ صَدَقَةٌ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا لازمی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی اس کی استطاعت نہ رکھے یا صدقہ نہ کر سکے تو؟ فرمایا: پھر اپنے ہاتھ سے کمائے اور اس کمائی سے خود کھائے اور صدقہ کرے، راوی نے کہا: پھر بھی صدقہ نہ کرے تو؟ فرمایا: پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے، کہا بتایئے اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ فرمایا: اچھی بات کا حکم کرے، عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ فرمایا: برے کام سے باز رہے اس کا یہی صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2789]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1445]، [مسلم 1008]، [نسائي 2537]، [أحمد 395/4]، [الطيالسي 180/1، 857]، [شرح السنة 1643]، [الأدب المفرد 306]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2781)
بخاری میں ہے: اچھا کام کرے، اور مسند الطیالسی میں ہے: اچھی بات کا حکم کرے اور برے کام سے باز رہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو باب على كل مسلم صدقہ کے تحت لا کر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے، جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہو تو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہو سکے وہی صدقہ ہے، مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا، جب اس کی بھی توفیق نہ ہو تو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کر دینا، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کوئی اور نیک کام کر دینا، مثلاً یہ کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کر دیا جائے، آخری درجہ یہ کہ برائی کو ترک کر دینا جس سے شریعت نے منع کیا ہے، یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعالِ خیر سے بالکل عاجز ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
35. باب مَنْ رَاءَى رَاءَى اللَّهُ بِهِ:
35. جس نے دکھاوا کیا اللہ تعالیٰ بھی اس سے دکھاوا کرے گا
حدیث نمبر: 2783
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، قال: حدثني ابو صخر , انه سمع مكحولا يقول: حدثني ابو هند الداري، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "من قام مقام رياء وسمعة، راءى الله به يوم القيامة وسمع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ , أَنَّهُ سَمِعَ مَكْحُولًا يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو هِنْدٍ الدَّارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "مَنْ قَامَ مَقَامَ رِيَاءٍ وَسُمْعَةٍ، رَاءَى اللَّهُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَسَمَّعَ".
سیدنا ابوہند داری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس نے ریاء و سمعہ کا مقام اختیار کیا اللہ بھی قیامت کے دن اس سے ویسا ہی ریا و سمعہ کا سلوک کرے گا۔ (یعنی قیامت کے دن اس کے کرتوت مخلوق کے سامنے ظاہر کر دے گا اور اس کی ریا کاری لوگوں کو سنا دے گا۔)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2790]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 270/5]، [طبراني 319/22، 803]، [الدولابي فى الكني 60/1] و [البزار فى كشف الأستار 2026] و [الفسوى فى المعرفة و التاريخ 440/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2782)
ہر عملِ صالح کے لئے ضروری ہے کہ وہ خالص اللہ کے لئے ہو اور سنّتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو، اگر دکھاوے اور سنانے کے لئے کوئی عمل کیا تو الله تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی عمل کرے گا، یعنی دنیا میں دکھاوا اور سمعہ ایسے عامل کو حاصل ہوگا، لوگ کہیں گے: فلاں نمازی ہے، مجاہد ہے یا قاریٔ قرآن ہے، اور آخر میں الله تعالیٰ خلائق کے سامنے رسوا کر کے اس کے دکھلاوے کا بھانڈا پھوڑ کر جہنم رسید فرمائے گا، کیونکہ اس نے الجزاء من جنس العمل کا قاعدہ بنا دیا ہے، جیسا کرنا ویسا بھرنا، اسی طرح « ﴿وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ﴾ [آل عمران: 54] » ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
36. باب مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الزَّرْعِ:
36. مومن کی مثال تنے جیسی ہے
حدیث نمبر: 2784
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عبد الله بن كعب، عن ابيه كعب بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مثل المؤمن مثل الخامة من الزرع تفيئها الرياح: تعدلها مرة، وتضجعها اخرى حتى ياتيه الموت. ومثل الكافر كمثل الارزة المجذية على اصلها لا يصيبها شيء حتى يكون انجعافها مرة واحدة". قال ابو محمد: الخامة: الضعيف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ تُفَيِّئُهَا الرِّيَاحُ: تُعَدِّلُهَا مَرَّةً، وَتُضْجِعُهَا أُخْرَى حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمَوْتَ. وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ عَلَى أَصْلِهَا لَا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْخَامَةُ: الضَّعِيفُ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری نازک شاخ جیسی ہے کہ ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے، کبھی اس کو گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے (یعنی سوکھ جاتا ہے)، اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا رہتا ہے، اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی اور آخر ایک ہی جھونکے میں جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «خامة» سے مراد ضعیف ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2791]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5643]، [مسلم 2810، واللفظ له و فى البخاري مثل المنافق والفاجر]۔ نیز دیکھئے: [أحمد 454/3]، [رامهرمزى فى أمثال الحديث 27]، [ابن أبى شيبه 10394]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2783)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر شاخِ نازک کی طرح قسم قسم کی تکالیف و پریشانیاں آتی رہتی ہیں لیکن وہ صبر کر کے جھیلتا ہے، ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتا، گو کتنی ہی تکلیف ہو مگر صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ان سب سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں، اس کے برعکس کافر و منافق کو ایک ہی جھونکا زمین بوس کر دیتا ہے اور آناً فاناً اس کی زندگی کا سورج غروب ہو جاتا ہے، صنوبر کے درخت سے اسی لئے مثال دی کیونکہ وہ سخت ہوتا ہے، ہوا سے کم جھکتا ہے، اور سخت ہوا چلے تو جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، جیسے تاڑ اور کھجور کا درخت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مومن ہمیشہ بلا و مصیبت میں گرفتار رہتا ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، کافر و منافق کو مصیبت و پریشانی کم ہوتی ہے اور یکبارگی موت اسے آ لیتی ہے۔
مومن کو چاہیے کہ رنج و غم اور مصیبت سے نہ گھبرائے، اس کو اللہ تعالیٰ کا احسان و رحمت سمجھے اور یقین رکھے کہ یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
37. باب الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ:
37. دنیا بڑی سرسبز و شیریں ہے
حدیث نمبر: 2785
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام , قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا حكيم , إن هذا المال خضر حلو، فمن اخذه بسخاوة نفس، بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس، لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا حَكِيمُ , إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ، بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرما دیا، میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا، میں نے پھر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے، اور جو اسے لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کوئی برکت نہ ہوگی، اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسوده نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2792]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1472]، [مسلم 1035]، [ترمذي 2463]، [نسائي 2530]، [أبويعلی 487/11]، [ابن حبان 3220]، [الحميدي 563، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2784)
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بڑے ہی فاضل، متقی، زیرک صحابہ میں سے تھے، لمبی عمر پائی، عہدِ معاویہ تک حیات تھے اور حبیبِ کا ئنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتے دم تک کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا، یہاں تک کہ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! گواہ رہنا میں حکیم کو دیتا ہوں لیکن وہ ہمیشہ مال و دولت لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اس حدیث میں حکیمِ انسانیت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلے میں صبر و قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لئے برکتوں کے دروازے کھلیں گے، اور تھوڑا مال بھی اس کے لئے کافی ہوگا۔
حریص: اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہو جائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی طرح بھی مزید دولت حاصل ہو جائے، ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہیں، نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں، نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اہل و عیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔
اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔
(مولانا راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
38. باب إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ:
38. اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قیل و قال کو ناپسند فرمایا ہے
حدیث نمبر: 2786
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد مولى المغيرة، عن المغيرة، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن واد البنات، وعقوق الامهات، وعن منع وهات، وعن قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَأْدِ الْبَنَاتِ، وَعُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ، وَعَنْ مَنْعٍ وَهَاتِ، وَعَنْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے، ماؤں کی نافرمانی کرنے، واجب حقوق کی ادائیگی نہ کرنے، اور دوسروں کا مال ناجائز طور پر دبا لینے، فضول بکواس کرنے، کثرت سے سوالات کرنے اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2793]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1477]، [مسلم 593]، [ابن حبان 5555]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2785)
«مَنْعٍ وَهَاتِ» کا ترجمہ بعض علماء نے یوں کیا ہے: اپنے اوپر جو حق واجب ہے جیسے زکاة، بال بچوں کی پرورش پر خرچ نہ کرنا، اور جس کا لینا واپس نہ دینا حرام ہے، یعنی پرایا مال بلا جواز لے لینا، اور قیل و قال کا مطلب خواہ مخواہ اپنا علم جتانے کے لئے لوگوں سے سوالات کرنا یا بے ضرورت حالات پوچھنا وغیرہ۔
(مولانا راز رحمہ اللہ)۔
اس حدیث میں چھ چیزوں سے روکا گیا ہے، بخاری شریف میں ہے: «إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُم» یعنی مذکورہ چھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر حرام کردی ہیں:
(1) زندہ لڑکی دفن کرنا، یہ رسومِ جاہلیہ میں سے ہے اور نہایت مہلک گناہ ہے۔
(2) ماں کی نافرمانی، اس میں باپ بھی داخل ہے، اور ماں باپ کی نافرمانی حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(3) اپنا فرض ادا نہ کرنا، اور دوسرے کا حق زبردستی چھین لینا، یہ بھی ظلم ہے اور حرام و کبائر میں سے ہے۔
(4) فضول بکواس کرنا، فلاں نے یہ کہا، یہ بات ایسے کہی گئی، یہ بھی نامناسب اور اسلامی آداب کے خلاف ہے۔
(5) سوالات کی کثرت، بلا ضرورت فرضی باتیں اور سوالات، یہ بھی ممنوع ہے۔
(6) مال کو ضائع کرنا بے ضرورت چیزوں میں، کھانے پینے اور لباس میں اسراف و تبذیر سے کام لینا، برے کاموں میں پیسہ لگانا جیسے ناچ گانا، فلم بینی، پتنگ بازی، آتش بازی جو آج کل شادیوں میں بہت ہوتی ہے، غرضیکہ فضول خرچی ہر کام میں شرعاً ممنوع ہے، جو لوگ ایسا کریں وہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
39. باب في الأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ:
39. گمراہ کرنے والے اماموں کا بیان
حدیث نمبر: 2787
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء، عن ثوبان: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "إنما اخاف على امتي الائمة المضلين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں ڈرتا ہوں اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2794]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2229]، [ابن ماجه 3952، وغيرهما]۔ یہ حديث رقم 215 پرگذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2786)
گمراه اماموں میں داخل ہے وہ حاکم جو قرآن کے خلاف حکم دے، اور قانونِ عقلی پر چلے، اور انفصال مقدمات میں قواعدِ عقلیہ کو ضوابطِ تقلید پر مقدم رکھے، اور ترویجِ بدعات و تنشیر سیئات اور احداث في الدین اور تاویہ مبتدعین اعزاز فاسقین کا مرتکب ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے، اور اپنی رعایا کو کتاب و سنّت کے مطابق نہ کھینچے۔
«معاذ اللّٰه من ذٰلك» (وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
40. باب انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِماً أَوْ مَظْلُوماً:
40. اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم
حدیث نمبر: 2788
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي الزبير، عن جابر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "لينصر الرجل اخاه ظالما او مظلوما، فإن كان ظالما، فلينهه، فإنه له نصرة، وإن كان مظلوما، فلينصره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لِيَنْصُرِ الرَّجُلُ أَخَاهُ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، فَإِنْ كَانَ ظَالِمًا، فَلْيَنْهَهُ، فَإِنَّهُ لَهُ نُصْرَةٌ، وَإِنْ كَانَ مَظْلُومًا، فَلْيَنْصُرْهُ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر وہ ظالم ہے تو (اس کی مدد یہ ہے کہ) اس کو ظلم سے روکے، اور اگر مظلوم ہے تو (اس کی مدد یہ ہے کہ) اس کی مدد کرے اور ظالم کے پنجے سے چھڑا دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2795]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ صحیح مسلم کی طویل حدیث کا ایک جملہ ہے جس میں ہے کہ مہاجر و انصار کے دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے اور دونوں نے اپنے اہلِ قبیلہ کو دہائی دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو جاہلیت کی پکار ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ: ”اپنے بھائی کی مدد کرو.......۔“ دیکھئے: [بخاري 2443]، [مسلم 2584]، [أبويعلی 1824]، [ابن حبان 5166]، [الموارد 1847]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
41. باب: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» :
41. خیر خواہی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2789
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، ونافع، عن ابن عمر، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الدين النصيحة"، قال: قلنا: لمن يا رسول الله؟، قال:"لله، ولرسوله، ولكتابه، ولائمة المسلمين وعامتهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَنَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالَ: قُلْنَا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:"لِلَّهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی (کرنے کا نام) ہے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی خیر خواہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی، اس کے رسول کی، اس کی کتاب کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2796]»
اس سند سے یہ حدیث حسن لیکن دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم عن تميم الداري 55]، [أبوداؤد 4944]، [نسائي 4208]، [أبويعلی عن ابن عباس 2372]، [مجمع الزوائد 293]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2787 سے 2789)
یہ حدیث جوامع الکلم اور ان چار احادیث میں سے ہے جو اسلام کی تمام باتوں کو جامع ہیں۔
اور نصیحت ایسا جامع لفظ ہے جو سچائی، خلوص، خیر خواہی اور سب بھلائیوں پر محیط ہے، اللہ کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام کی پیروی کی جائے اور مناہی سے اجتناب کیا جائے۔
رسول کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی رسالت کی تصدیق، ان کے حکم و فرمان کی اطاعت اور سنّت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کیا جائے۔
کتاب الله کی خیر خواہی: اس کی تصدیق، تلاوت کا التزام، تحریف و تبدیل لفظی معنوی ہر قسم سے اجتناب اور اس کے احکام پر عمل و تنفیذ کرنا ہے۔
مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے حق بات میں ان کی اعانت، غیر معصیت میں ان کی اطاعت ہو، اگر وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت و خروج سے گریز کیا جائے الا یہ کہ ان سے کفرِ صریح کا ارتکاب و اظہار ہو۔
عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لئے ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، اور ان سے محبت رکھے، ان کی ایذا رسانی سے بچے۔
(حافظ صلاح الدین، ریاض الصالحین)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
42. باب: الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً:
42. اسلام غربت کے ساتھ شروع ہوا
حدیث نمبر: 2790
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا حفص بن غياث، عن الاعمش، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الإسلام بدا غريبا وسيعود غريبا اظن حفصا، قال: فطوبى للغرباء"، قيل: ومن الغرباء؟، قال:"النزاع من القبائل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا أَظُنُّ حَفْصًا، قَالَ: فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟، قَالَ:"النُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غریب ہو جائے گا جس طرح شروع ہوا تھا۔ میرا گمان ہے حفص نے کہا: تو خوشی ہو غرباء کے لئے، کہا گیا: غرباء کون ہیں؟ کہا: قبائل سے نکلے ہوئے (غریب و مسافر) لوگ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2797]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 145]، [ابن ماجه 3986]، [أبويعلی 4975، 6190]، [ابن أبى شيبه 16713]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2789)
امام دارمی رحمہ اللہ کا خیال ہے: طوبی للغرباء سے آخر حدیث تک راویٔ حدیث حفص بن غیاث کا کلام ہے، لیکن مسلم شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔
اور طوبی کے معانی خوشی و سرور اور بعض نے جنّت کہا ہے، اور بعض نے کہا وہ درخت ہے جو جنّت میں ہے۔
واللہ اعلم۔
اس حدیث سے اشارہ اس طرف ہے کہ اسلام مدینے سے شروع ہوا، یعنی ان لوگوں سے شروع ہوا جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے، اور وہ غریب و مسافر تھے، اپنا وطن چھوڑ کر آئے تھے، اور پھر ایسا ہی ہو جائے گا، یعنی اخیر زمانے میں اسلام کٹتے سمٹتے پھر مدینہ میں آجائے گا اور ساری دنیا میں کفر کا زور ہوگا، جو مسلمان ہوں گے کافروں کے ڈر سے بھاگ بھاگ کر مدینہ میں آجائیں گے۔
قاضی عیاض نے کہا: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اسلام شروع ہوا معدود لوگوں سے، پھر آخر زمانے میں بھی اسی طرح گھٹ کر تھوڑے لوگوں میں رہ جائے گا (وحیدی)، اور بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اسلام غریب و نادار لوگوں سے شروع ہوا جیسے سیدنا بلال و سیدنا صہیب رضی اللہ عنہم اور پھر ایسے ہی غریب لوگوں میں لوٹ جائے گا، یعنی مال دار اور بڑے لوگ اسے چھوڑ دیں گے اور صرف غریب ہی اپنائیں گے، اور یہ قربِ قیامت ایسا ہو گا، فی الوقت دنیا کے ہر کونے میں اسلام اور مسلمان موجود ہیں، اور نام کے ہی سہی ساٹھ سے زائد اسلامی ممالک ہر خطے میں موجود ہیں۔
جن میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.