(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، ونافع، عن ابن عمر، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الدين النصيحة"، قال: قلنا: لمن يا رسول الله؟، قال:"لله، ولرسوله، ولكتابه، ولائمة المسلمين وعامتهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَنَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالَ: قُلْنَا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:"لِلَّهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین خیر خواہی (کرنے کا نام) ہے“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی خیر خواہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی، اس کے رسول کی، اس کی کتاب کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2787 سے 2789) یہ حدیث جوامع الکلم اور ان چار احادیث میں سے ہے جو اسلام کی تمام باتوں کو جامع ہیں۔ اور نصیحت ایسا جامع لفظ ہے جو سچائی، خلوص، خیر خواہی اور سب بھلائیوں پر محیط ہے، اللہ کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام کی پیروی کی جائے اور مناہی سے اجتناب کیا جائے۔ رسول کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی رسالت کی تصدیق، ان کے حکم و فرمان کی اطاعت اور سنّت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کیا جائے۔ کتاب الله کی خیر خواہی: اس کی تصدیق، تلاوت کا التزام، تحریف و تبدیل لفظی معنوی ہر قسم سے اجتناب اور اس کے احکام پر عمل و تنفیذ کرنا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے حق بات میں ان کی اعانت، غیر معصیت میں ان کی اطاعت ہو، اگر وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت و خروج سے گریز کیا جائے الا یہ کہ ان سے کفرِ صریح کا ارتکاب و اظہار ہو۔ عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لئے ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، اور ان سے محبت رکھے، ان کی ایذا رسانی سے بچے۔ (حافظ صلاح الدین، ریاض الصالحین)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2796]» اس سند سے یہ حدیث حسن لیکن دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم عن تميم الداري 55]، [أبوداؤد 4944]، [نسائي 4208]، [أبويعلی عن ابن عباس 2372]، [مجمع الزوائد 293]