Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
36. باب مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الزَّرْعِ:
مومن کی مثال تنے جیسی ہے
حدیث نمبر: 2784
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ تُفَيِّئُهَا الرِّيَاحُ: تُعَدِّلُهَا مَرَّةً، وَتُضْجِعُهَا أُخْرَى حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمَوْتَ. وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ عَلَى أَصْلِهَا لَا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْخَامَةُ: الضَّعِيفُ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری نازک شاخ جیسی ہے کہ ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے، کبھی اس کو گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے (یعنی سوکھ جاتا ہے)، اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا رہتا ہے، اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی اور آخر ایک ہی جھونکے میں جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «خامة» سے مراد ضعیف ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2791]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5643]، [مسلم 2810، واللفظ له و فى البخاري مثل المنافق والفاجر]۔ نیز دیکھئے: [أحمد 454/3]، [رامهرمزى فى أمثال الحديث 27]، [ابن أبى شيبه 10394]

وضاحت: (تشریح حدیث 2783)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر شاخِ نازک کی طرح قسم قسم کی تکالیف و پریشانیاں آتی رہتی ہیں لیکن وہ صبر کر کے جھیلتا ہے، ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتا، گو کتنی ہی تکلیف ہو مگر صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ان سب سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں، اس کے برعکس کافر و منافق کو ایک ہی جھونکا زمین بوس کر دیتا ہے اور آناً فاناً اس کی زندگی کا سورج غروب ہو جاتا ہے، صنوبر کے درخت سے اسی لئے مثال دی کیونکہ وہ سخت ہوتا ہے، ہوا سے کم جھکتا ہے، اور سخت ہوا چلے تو جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، جیسے تاڑ اور کھجور کا درخت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مومن ہمیشہ بلا و مصیبت میں گرفتار رہتا ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، کافر و منافق کو مصیبت و پریشانی کم ہوتی ہے اور یکبارگی موت اسے آ لیتی ہے۔
مومن کو چاہیے کہ رنج و غم اور مصیبت سے نہ گھبرائے، اس کو اللہ تعالیٰ کا احسان و رحمت سمجھے اور یقین رکھے کہ یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري