اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مثلِ سابق مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2848]» ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2839 سے 2841) ان دونوں حدیثوں سے پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت سے رحمت و شفقت اور محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رب العالمین کی طرف سے ایک دعا کا اختیار ملا جو شرفِ قبولیت حاصل کر چکی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بھی ہے، لیکن نہ اپنی ذات کے لئے نہ اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ مانگتے ہیں بلکہ اس دعا کا حق بھی امت کے حق میں محفوظ رکھ لیتے ہیں، فداه ابی و امی، اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کا اہل بنائے۔ (آمین)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة يحدث , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال: "يدخل الجنة سبعون الفا من امتي بغير حساب". فقال عكاشة: يا رسول الله ادع الله ان يجعلني منهم، فدعا، فقال آخر: ادع الله لي، فقال:"سبقك بها عكاشة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: "يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِي بِغَيْرِ حِسَابٍ". فَقَالَ عُكَّاشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا، فَقَالَ آخَرُ: ادْعُ اللَّهَ لِي، فَقَالَ:"سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے“، سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! دعا کردیجئے اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے، آپ نے دعا فرما دی، ایک دوسرے شخص نے کہا: میرے لئے بھی دعا فرمادیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2849]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5811]، [مسلم 216]، [ابن حبان 7244]، [أبويعلی 2842] و [أبوعوانه 140/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2841) دوسرے دعا کی درخواست کرنے والے صحابی سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے عکاشہ کی دعا قبول ہو چکی، مطلب یہ تھا کہ دعا کی قبولیت کی گھڑی نکل چکی، یہ کامیابی و سعادت سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کی قسمت میں تھی جو ان کو حاصل ہوگئی، ایسا کہنے کی الله تعالیٰ کی طرف سے یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی ہوگی۔
سیدنا عبداللہ بن ابی الجدعاء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت سے بنوتمیم سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے“، لوگوں نے عرض کیا: آپ کے علاوہ یا رسول اللہ!، فرمایا: ”ہاں، میرے علاوہ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ووهيب هو: ابن خالد وخالد هو: الحذاء، [مكتبه الشامله نمبر: 2850]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 6866]، [ابن حبان 7376]، [موارد الظمآن 2598]، [معجم الصحابة 530]
وضاحت: (تشریح حدیث 2842) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے کتنے خوش نصیبوں کو قیامت کے دن الله تعالیٰ کے حکم سے شفاعت کی اجازت ہوگی اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ یہ مرتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ووهيب هو: ابن خالد وخالد هو: الحذاء
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد، عن داود، عن الشعبي، عن مسروق، قال: قلت لعائشة: يا ام المؤمنين، ارايت قول الله تعالى: يوم تبدل الارض غير الارض والسموات وبرزوا لله الواحد القهار سورة إبراهيم آية 48 اين الناس يومئذ؟ قالت: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:"على الصراط".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ سورة إبراهيم آية 48 أَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:"عَلَى الصِّرَاطِ".
مسروق رحمہ اللہ نے کہا: میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ کا اللہ کے اس فرمان: «﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ....﴾»(ابراہیم: 48/14) کے بارے میں کیا خیال ہے، لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ ترجمہ: جس دن زمین اس زمین کے سوا بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد و قہار (ایک و زبردست غلبہ والے) کے رو برو ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس وقت لوگ) پل صراط پر ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2851]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2791]، [ترمذي 3121]، [ابن ماجه 4279]، [ابن حبان 7380]، [الحميدي 276]
وضاحت: (تشریح حدیث 2843) امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس آیتِ شریفہ میں تبدیلِ ارض سے مراد دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے واقع ہو، یعنی یہ آسمان و زمین اپنی صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے، دوسرے یہ کہ ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ یہ زمین رہے گی نہ یہ آسمان، زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور۔ حدیث میں ہے قیامت کے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہوں گے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن السدي، قال: سالت مرة عن قول الله عز وجل: وإن منكم إلا واردها كان على ربك حتما مقضيا سورة مريم آية 71 فحدثني: ان عبد الله بن مسعود حدثهم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يرد الناس النار ثم يصدرون عنها باعمالهم، فاولهم كلمح البرق، ثم كالريح، ثم كحضر الفرس، ثم كالراكب في رحله، ثم كشد الرجل، ثم كمشيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ مُرَّةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا سورة مريم آية 71 فَحَدَّثَنِي: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ يَصْدُرُونَ عَنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ، فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ، ثُمَّ كَالرِّيحِ، ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ، ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ، ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ، ثُمَّ كَمَشْيِهِ".
سدی رحمہ الله نے کہا: میں نے مره (ہمدانی) سے اس آیت: «﴿وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا . . . . . . ﴾»(مریم: 71/19) کا مطلب پوچھا: (یعنی: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر وارد نہ ہو)، مرہ نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے حدیث بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگ جہنم پر وارد ہوں گے، پھر اس سے اپنے اعمال کے موافق نکلیں گے، سو پہلا فرد تو وہ ایسے نکلے گا جیسے بجلی چمکتی ہے، پھر دوسرا ہوا کی طرح، اور تیسرا تیز گھوڑے کے دوڑنے کی طرح، چوتھا اونٹ پر سوار کی طرح، اور پانچواں جیسے آدمی دوڑتا ہے، چھٹا جیسے آدمی چلتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن والسدي هو إسماعيل بن عبد الرحمن ومرة هو: ابن شراحيل، [مكتبه الشامله نمبر: 2852]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن اور مرة: ابن شراحیل ہیں۔ تخریج دیکھئے: [ترمذي 3159]، [ابن حبان 7380]، [الحميدي 276]
وضاحت: (تشریح حدیث 2844) اس دن پل صراط کو جہنم کی پیٹھ پر رکھا جائے گا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے کہیں زیادہ دھار والا ہوگا، اور لوگ اپنے اعمال کے بقدر رفتار سے اس پر سے گذریں گے، چنانچہ کچھ بجلی کی مانند جھٹ سے گذر جائیں گے اور کچھ لوگ گھسٹ گھسٹ کر نکلیں گے۔ اس حدیث سے پل صراط کا ثبوت ملا، اور یہ کہ ہر ایک کو اس سے گذرنا ہے، اچھے لوگ اپنے اعمال کی بدولت اللہ کے رحم و کرم سے اس سے بآسانی گذر جائیں گے، اور برے لوگ جہنم کے آنکڑوں میں الجھ کر دوزخ رسید ہوں گے۔ «(أعاذنا اللّٰه منه)»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والسدي هو إسماعيل بن عبد الرحمن ومرة هو: ابن شراحيل
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، عن حماد بن سلمة، عن عاصم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "يؤتى بالموت بكبش اغبر، فيوقف بين الجنة والنار، فيقال: يا اهل الجنة، فيشرئبون وينظرون، ويقال: يا اهل النار، فيشرئبون وينظرون، ويرون ان قد جاء الفرج، فيذبح ويقال: خلود لا موت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "يُؤْتَى بِالْمَوْتِ بِكَبْشٍ أَغْبَرَ، فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، وَيَرَوْنَ أَنْ قَدْ جَاءَ الْفَرَجُ، فَيُذْبَحُ وَيُقَالُ: خُلُودٌ لَا مَوْتَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن موت کو خاکی رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت و جہنم کے درمیان اسے کھڑا کر دیا جائے گا، پھر پکارا جائے گا: اے جنت والو! تو وہ اونچی گردن کر کے دیکھنے لگیں گے، پھر کہا جائے گا: اسے جہنم کے مکینوں! چنانچہ وہ بھی گردنیں اونچی کر کے دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ اب چھٹکارے کا وقت آ گیا، اس وقت (اس مینڈھے یعنی موت) کو ذبح کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا: اب ہمیشہ زندہ رہنا ہے، موت نہیں آئے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2853]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث کی اصل صحیحین میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6548]، [مسلم 2850]۔ اور وہاں یہ اضافہ بھی ہے کہ موت کو ذبح کر دیئے جانے کے بعد جنتی لوگوں کی خوشی و مسرت میں اور اضافہ ہوگا اور جہنمیوں کے حزن و ملال میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ مذکورہ حدیث کے حوالہ کے لئے دیکھئے: [أبويعلي 1175]، [ابن حبان 7450]، [الموارد 2615]
وضاحت: (تشریح حدیث 2845) موت کا مینڈھے کی صورت میں لایا جانا اور اس کا ذبح کیا جانا اس حدیث سے ثابت ہوا، جس پر ایمان واجب ہے، اور اسی لئے قرآن پاک میں کہا گیا: « ﴿وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ﴾[العنكبوت: 64] » نیز اہلِ جنت و جہنم میں جانے والوں کے لئے جگہ جگہ «خَالِدِيْنَ فِيْهَا» آیا ہے جس سے ہمیشہ کی زندگی مراد ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا شعبة، عن سماك، عن النعمان بن بشير، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب، فقال: "انذرتكم النار، انذرتكم النار، انذرتكم النار"فما زال يقولها حتى لو كان في مقامي هذا، لسمعه اهل السوق، حتى سقطت خميصة كانت عليه عند رجليه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: "أَنْذَرْتُكُمْ النَّارَ، أَنْذَرْتُكُمْ النَّارَ، أَنْذَرْتُكُمْ النَّارَ"فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى لَوْ كَانَ فِي مَقَامِي هَذَا، لَسَمِعَهُ أَهْلُ السُّوقِ، حَتَّى سَقَطَتْ خَمِيصَةٌ كَانَتْ عَلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ.
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو (جہنم کی) آگ سے آگاہ کر دیا ہے، میں نے تم کو آگ سے ڈرایا ہے، میں نے تم کو آگ سے چوکنا کر دیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس کلمے کو دہراتے رہے یہاں تک کہ اگر میری جگہ پر سارے بازار والے بھی موجود ہوتے تو سن لیتے اور یہ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپکے پیروں میں گر پڑی۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2854]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 644]، [موارد الظمآن 2490] و [الطيالسي فى منحة المعبود 693]، [مجمع الزوائد 3169]
وضاحت: (تشریح حدیث 2846) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عذابِ جہنم اور عذاب النار سے ڈرایا کہ لوگ اللہ کی نافرمانی اور کفر و شرک سے دور رہیں ورنہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے، اسی طرح قرآن پاک میں بھی ہے: « ﴿فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى﴾[الليل: 14] » یعنی ”میں نے تمہیں شعلے مارتی ہوئی آگ سے آگاہ کر دیا ہے۔ “ «(أعاذنا اللّٰه وإياكم منها)»
(حديث قدسي) اخبرنا النضر بن شميل، قال: اخبرنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:"كان عبد من عباد الله، وكان لا يدين لله دينا، وإنه لبث حتى ذهب منه عمر وبقي عمر، فعلم انه لم يبتئر عند الله خيرا، فدعا بنيه , فقال: اي اب تعلموني؟ قالوا: خيره يا ابانا، قال: فإني لا ادع عند احد منكم مالا هو مني إلا اخذته منكم، او لتفعلن ما آمركم، قال: فاخذ منهم ميثاقا وربي، قال: اما انا إذا مت فخذوني فاحرقوني بالنار حتى إذا كنت حمما فدقوني ثم اذروني في الريح، قال: ففعلوا ذلك به ورب محمد حين مات، فجيء به احسن ما كان قط، فعرض على ربه، فقال: ما حملك على النار؟ قال: خشيتك يا رب، قال: إني اسمعك لراهبا، قال: فتيب عليه". قال ابو محمد: يبتئر، يدخر.(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:"كَانَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَكَانَ لَا يَدِينُ لِلَّهِ دِينًا، وَإِنَّهُ لَبِثَ حَتَّى ذَهَبَ مِنْهُ عُمُرٌ وَبَقِيَ عُمُرٌ، فَعَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، فَدَعَا بَنِيهِ , فَقَالَ: أَيُّ أَبٍ تَعْلَمُونِي؟ قَالُوا: خَيْرُهُ يَا أَبَانَا، قَالَ: فَإِنِّي لَا أَدَعُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مَالًا هُوَ مِنِّي إِلَّا أَخَذْتُهُ مِنْكُمْ، أَوْ لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ، قَالَ: فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا وَرَبِّي، قَالَ: أَمَّا أَنَا إِذَا مُتُّ فَخُذُونِي فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ حُمَمًا فَدُقُّونِي ثُمَّ اذْرُونِي فِي الرِّيحِ، قَالَ: فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ وَرَبِّ مُحَمَّدٍ حِينَ مَاتَ، فَجِيءَ بِهِ أَحْسَنَ مَا كَانَ قَطُّ، فَعُرِضَ عَلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى النَّارِ؟ قَالَ: خَشْيَتُكَ يَا رَبِّ، قَالَ: إِنِّي أَسْمَعُكَ لَرَاهِبًا، قَالَ: فَتِيبَ عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَبْتَئِرُ، يَدَّخِرُ.
بہز بن حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سے روایت کرتے ہوئے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کا کوئی دین ایمان نہ تھا، وہ اسی بے دینی پر رہا یہاں تک کہ اس کی عمر کا اکثر حصہ گذر گیا اور تھوڑی سی عمر باقی رہ گئی تو اسے احساس ہوا کہ اس نے اللہ کے لئے کوئی نیکی نہیں کی، چنانچہ اس نے اپنے لڑکوں کو بلایا اور کہا: تم مجھے کیسا باپ پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: بہت اچھا اے اباجان! اس نے کہا: میں تم میں سے کسی کے پاس اپنا مال نہیں چھوڑوں گا، میں تم سے سب لے لوں گا، الا یہ کہ میں تمہیں کوئی حکم دوں تو تم عمل کرو گے؟ پھر اس نے ان سے پکا وعدہ لیا، میرے رب کی قسم اس نے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے لے کر آگ میں جلا دینا اور جب میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس ڈالنا اور میری راکھ ہوا میں اڑا دینا“(بعض روایات میں ہے جب زور کی آندھی آئے تو آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی ہوا میں اڑا دینا) فرمایا: ”میرے رب کی قسم! ان لڑکوں نے اس کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اس کو اس کی اصل حالت میں لایا گیا اور رب العالمین کے حضور پیش کیا گیا، الله تعالیٰ نے فرمایا: تم کو آ گ اختیار کرنے پر کس چیز نے ابھارا؟ عرض کیا: تیری خشیت نے اے میرے رب، الله تعالیٰ نے کہا: میں تجھے ڈرتا دیکھ رہا ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی توبہ قبول کر لی گئی۔“(یعنی اس کو بخش دیا گیا)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «يَبْتَئِرُ» کا معنی ہے «يَدَّخِرُ» یعنی آخرت کے لئے ذخیرہ کیا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2855]» اس حدیث کی سند جید ہے اور اصل اس کی صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3478، 7508]، [مسلم 2757]، [أحمد 5/5]، [طبراني 423/19، 1076، 1077]، [أبويعلی 1002، 5056]
وضاحت: (تشریح حدیث 2847) اس حدیث میں مذکور شخص بنی اسرائیل میں سے تھا، اور ایک روایت بخاری کی ہے کہ کفن چور تھا، لیکن اللہ کی خشیت دل میں تھی کہ مجھے ضرور جہنم میں ڈالے گا کیوں کہ کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں، لیکن اس چیز سے جاہل تھا کہ الله تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے، اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے اس نے یہ راستہ سوچا، اللہ تعالیٰ نے بحر و بر سے اس کا ایک ایک ذرہ جمع کیا اور حساب کے لئے کھڑا فرما دیا، اور رحمتِ ربانی دیکھئے کہ اس کی جہالت و نادانی اور بے عملی کے باوجود صرف اتنے سے ایمان اور خشیتِ الٰہی کے عوض اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دخلت امراة النار في هرة، فقيل: لا انت اطعمتيها وسقيتيها، ولا انت ارسلتيها فتاكل من خشاش الارض".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ، فَقِيلَ: لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِيهَا وَسَقَيْتِيهَا، وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِيهَا فَتَأْكُلَ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت ایک بلی کے سبب دوزخ میں گئی، اس سے کہا گیا کہ نہ تو نے اسے کھلایا، نہ پلایا اور نہ چھوڑا (بلکہ باندھے رکھا) کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2856]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2365]، [مسلم 2242]، [أحمد 159/2] و [البيهقي 13/8]
وضاحت: (تشریح حدیث 2848) اسلام نرم دلی، ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے، مذکور بالا حدیث میں ایک جانور کو تکلیف دینے کی وجہ سے ایک عورت کو جہنم میں جانا پڑا، اس سے یہ نکلا کہ کسی بھی جاندار کو باوجود قدرت اور آسانی کے اگر کوئی شخص دانا پانی نہ دے اور وہ بھوک و پیاس کی وجہ سے مر جائے تو اس شخص کے لئے یہ جرم دوزخ میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ سبحان اللہ! کیا تعلیم ہے، جانوروں کے ساتھ یہ سلوک اور آدمی کے ساتھ ظلم و نا انصافی تو اور بھی بڑا جرم ہے، ایک آدمی کے قتل کو قرآن پاک میں پوری نوعِ انسان کے قتل کے مترادف گردانا ہے: « ﴿فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا﴾[المائده: 32] » واضح رہے کہ قربانی کے جانور کو بھی دانا پانی کھلا پلا کر ہی ذبح کرنا چاہیے، جیسا کہ حدیث میں: «فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذِّبْحَ أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.» اس حدیث کا حوالہ حدیث نمبر (2009) پر گذر چکا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد بن ابي ايوب بن مقلاص مولى ابي هريرة، وكنيته: ابو يحيى، قال: سمعت دراجا: ابا السمح، يقول: سمعت ابا الهيثم، يقول: سمعت ابا سعيد الخدري، يقول: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليسلط على الكافر في قبره تسعة وتسعون تنينا تنهشه وتلدغه حتى تقوم الساعة، ولو ان تنينا منها نفخ في الارض ما نبتت خضراء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ بْنِ مِقْلَاصٍ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَكُنْيَتُهُ: أَبُو يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ دَرَّاجًا: أَبَا السَّمْحِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الْهَيْثَمِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيُسَلَّطُ عَلَى الْكَافِرِ فِي قَبْرِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ تِنِّينًا تَنْهَشُهُ وَتَلْدَغُهُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، وَلَوْ أَنَّ تِنِّينًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا نَبَتَتْ خَضْرَاءُ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافر پر اس کی قبر میں ننانوے اژدہے مسلط کر دیئے جائیں گے جو اسے نوچیں گے اور ڈسیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے، اگر ان میں سے ایک اژدہا زمین میں پھنکار دے تو زمین سے سبزہ نہ اگے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2857]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 1329]، [موارد الظمآن 783]، [مجمع الزوائد 4345]