سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
91. باب فِيمَنْ قَالَ: إِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ:
ایک آدمی کا یہ کہنا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا
حدیث نمبر: 2848
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:"كَانَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَكَانَ لَا يَدِينُ لِلَّهِ دِينًا، وَإِنَّهُ لَبِثَ حَتَّى ذَهَبَ مِنْهُ عُمُرٌ وَبَقِيَ عُمُرٌ، فَعَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، فَدَعَا بَنِيهِ , فَقَالَ: أَيُّ أَبٍ تَعْلَمُونِي؟ قَالُوا: خَيْرُهُ يَا أَبَانَا، قَالَ: فَإِنِّي لَا أَدَعُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مَالًا هُوَ مِنِّي إِلَّا أَخَذْتُهُ مِنْكُمْ، أَوْ لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ، قَالَ: فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا وَرَبِّي، قَالَ: أَمَّا أَنَا إِذَا مُتُّ فَخُذُونِي فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ حُمَمًا فَدُقُّونِي ثُمَّ اذْرُونِي فِي الرِّيحِ، قَالَ: فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ وَرَبِّ مُحَمَّدٍ حِينَ مَاتَ، فَجِيءَ بِهِ أَحْسَنَ مَا كَانَ قَطُّ، فَعُرِضَ عَلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى النَّارِ؟ قَالَ: خَشْيَتُكَ يَا رَبِّ، قَالَ: إِنِّي أَسْمَعُكَ لَرَاهِبًا، قَالَ: فَتِيبَ عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَبْتَئِرُ، يَدَّخِرُ.
بہز بن حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سے روایت کرتے ہوئے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کا کوئی دین ایمان نہ تھا، وہ اسی بے دینی پر رہا یہاں تک کہ اس کی عمر کا اکثر حصہ گذر گیا اور تھوڑی سی عمر باقی رہ گئی تو اسے احساس ہوا کہ اس نے اللہ کے لئے کوئی نیکی نہیں کی، چنانچہ اس نے اپنے لڑکوں کو بلایا اور کہا: تم مجھے کیسا باپ پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: بہت اچھا اے اباجان! اس نے کہا: میں تم میں سے کسی کے پاس اپنا مال نہیں چھوڑوں گا، میں تم سے سب لے لوں گا، الا یہ کہ میں تمہیں کوئی حکم دوں تو تم عمل کرو گے؟ پھر اس نے ان سے پکا وعدہ لیا، میرے رب کی قسم اس نے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے لے کر آگ میں جلا دینا اور جب میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس ڈالنا اور میری راکھ ہوا میں اڑا دینا“ (بعض روایات میں ہے جب زور کی آندھی آئے تو آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی ہوا میں اڑا دینا) فرمایا: ”میرے رب کی قسم! ان لڑکوں نے اس کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اس کو اس کی اصل حالت میں لایا گیا اور رب العالمین کے حضور پیش کیا گیا، الله تعالیٰ نے فرمایا: تم کو آ گ اختیار کرنے پر کس چیز نے ابھارا؟ عرض کیا: تیری خشیت نے اے میرے رب، الله تعالیٰ نے کہا: میں تجھے ڈرتا دیکھ رہا ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی توبہ قبول کر لی گئی۔“ (یعنی اس کو بخش دیا گیا)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «يَبْتَئِرُ» کا معنی ہے «يَدَّخِرُ» یعنی آخرت کے لئے ذخیرہ کیا ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2855]»
اس حدیث کی سند جید ہے اور اصل اس کی صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3478، 7508]، [مسلم 2757]، [أحمد 5/5]، [طبراني 423/19، 1076، 1077]، [أبويعلی 1002، 5056]
وضاحت: (تشریح حدیث 2847)
اس حدیث میں مذکور شخص بنی اسرائیل میں سے تھا، اور ایک روایت بخاری کی ہے کہ کفن چور تھا، لیکن اللہ کی خشیت دل میں تھی کہ مجھے ضرور جہنم میں ڈالے گا کیوں کہ کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں، لیکن اس چیز سے جاہل تھا کہ الله تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے، اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے اس نے یہ راستہ سوچا، اللہ تعالیٰ نے بحر و بر سے اس کا ایک ایک ذرہ جمع کیا اور حساب کے لئے کھڑا فرما دیا، اور رحمتِ ربانی دیکھئے کہ اس کی جہالت و نادانی اور بے عملی کے باوجود صرف اتنے سے ایمان اور خشیتِ الٰہی کے عوض اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد