سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انگوروں کے باغ کو کرم نہ کہو کیونکہ کرم تو مسلمان مرد ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2742]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6182]، [مسلم 2247]، [أبويعلی 5929]، [ابن حبان 5832]، [الحميدي 1130]
وضاحت: (تشریح حدیث 2734) انگور کو کرم کہنے سے اس لئے روکا کیونکہ اس سے شراب بنتی ہے، اور عرب کے لوگ اسے کرم اس لئے کہتے کہ ان کے خیال میں شراب نوشی سے سخاوت اور بزرگی پیدا ہوتی تھی۔ ان کے خیال کے رد میں اس نام سے پکارنے سے منع فرمایا۔ نیز بتایا کہ کرم تو مسلم کی صفت ہے، جو مجسم کرم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو عاصم، عن عبد الله بن عبيد، عن انس، قال: كان غلام يسوق بازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "يا انجشة، رويدا سوقك بالقوارير".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ غُلَامٌ يَسُوقُ بِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا أَنْجَشَةُ، رُوَيْدًا سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (کی سواری) کو لے کر چل رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انجثہ! آبگینوں (شیشوں) کو آہستہ لے کر چلو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده لا خطم له ولا زمام ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2743]» اس سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6149]، [مسلم 2323]، [أبويعلی 2809]، [ابن حبان 5800]، [الحميدي 1243]
وضاحت: (تشریح حدیث 2735) قواریر شیشے یا شیشے کی بوتل کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد عورتیں (امہات المومنین) تھیں جو فی الواقع شیشے کی طرح نازک ہوتی ہیں۔ انجشہ نامی غلام اونٹوں کا چلانے والا بڑا خوش آواز تھا، اور اس کے گانے سے اونٹ مست ہو کر خوب بھاگ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر ہوا کہ کہیں عورتیں گرنہ جائیں، اس لئے فرمایا: ”آہستہ لے چل۔ “ اس میں مزاح یا مذاق کا پہلو اس طرح ہے کہ عورتوں کو شیشے سے تشبیہ دی اور انہیں شیشے کی طرح نازک قرار دیا۔ یہ تشبیہ بہت عمدہ تھی۔ عورتیں اسی طرح نازک ہوتی ہیں۔ صنفِ نازک پر یہ رحمۃ للعالمین کا احسانِ عظیم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کمزوری و نزاکت کا مردوں کو قدم قدم پر احساس دلایا۔ (راز رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده لا خطم له ولا زمام ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم، ويل له! ويل له!".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ! وَيْلٌ لَهُ!".
بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے، انہوں نے دادا سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”خرابی ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولے، خرابی ہے اس کے لئے، خرابی ہے اس کے لئے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2744]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4990]، [ترمذي 2316]، [أحمد 7/5]، [طبراني 403/19، 951]، [الحاكم 144]، [شرح السنة 3417، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2736) ویل کے معنی خرابی اور ہلاکت کے ہیں، نیز ویل جہنم میں ایک گڈھے کانام بھی ہے، جو شخص محض لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی کہانیاں یا افسانے یا لطیفے گڑھے اس کے لئے آخرت میں سخت وعید ہے، اور جھوٹ ہر حال میں مذموم ہے، اور جھوٹے پر الله کی لعنت ہوتی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: صدق النبي صلى الله عليه وسلم امية بن ابي الصلت في بيتين من الشعر، فقال: رجل وثور تحت رجل يمينه والنسر للاخرى وليث مرصد فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"صدق". قال: والشمس تطلع كل آخر ليلة حمراء يصبح لونها يتورد فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"صدق". فقال قائل: تابى فما تطلع لنا في رسلها إلا معذبة وإلا تجلد فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"صدق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَدَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَيَّةَ بْنَ أَبِي الصَّلْتِ فِي بَيْتَيْنِ مِنْ الشِّعْرِ، فَقَالَ: رَجُلٌ وَثَوْرٌ تَحْتَ رِجْلِ يَمِينِهِ وَالنَّسْرُ لِلْأُخْرَى وَلَيْثٌ مُرْصَدُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"صَدَقَ". قَالَ: وَالشَّمْسُ تَطْلُعُ كُلَّ آخِرِ لَيْلَةٍ حَمْرَاءَ يُصْبِحُ لَوْنُهَا يَتَوَرَّدُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"صَدَقَ". فَقَالَ قَائِلٌ: تَأْبَى فَمَا تَطْلُعُ لَنَا فِي رِسْلِهَا إِلَّا مُعَذَّبَةً وَإِلَّا تُجْلَدُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"صَدَقَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیہ بن ابی الصلت کے اشعار کی تصدیق کی جس میں اس نے کہا: زحل اور ثور اس کے داہنے پیر اور نسر بایاں پیر کے نیچے اور لیث ستاره اس کی نگرانی میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ کہا (یعنی یہ سب سیارے الله تعالیٰ سے نیچے اور باری تعالیٰ سب سے اوپر (عرش پر مستوی ہے)“، پھر اس نے کہا: اور سورج ہر رات کے آخر میں طلوع ہوتا ہے تو اس کا رنگ سرخ گلابی ہوتا ہے۔ (یعنی عظمت و جلال کی وجہ سے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی سچ کہا“(حدیث میں ہے کہ سورج روزانہ صبح کے وقت اللہ کو سجدہ کرتا اور طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے پھر طلوع ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اجازت نہ دے گا اور جہاں غروب ہوا وہیں سے طلوع ہونے کا حکم ہوگا.... «أو كما قال عليه السلام» ۔ پھر کسی نے کہا: سورج اپنے آپ سے طلوع ہونے کا انکار کرتا ہے الا یہ کہ عذاب میں گرفتار کر دیا جائے، کڑے لگائے جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا۔“
تخریج الحدیث: «[البحر الطويل]، [مكتبه الشامله نمبر: 2745]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6064]۔ ابن ابی عاصم نے [السنة 579] میں، [طبراني 11591] میں، ابن عبدالبر نے [التمهيد 8/4] میں، ابن کثیر نے [البداية 12/1] میں اور [أبويعلی 2482] نے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2737) امیہ بن ابی الصلت جاہلی شاعر تھا اور اہلِ کتاب کا علم رکھتا تھا، مسلمان ہونا چاہتا تھا لیکن یہ سعادت اس کے حصے میں نہ آسکی، اپنی شاعری میں بہت سی سچی باتیں ذکر کی ہیں، جس کی تائید پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شعر میں حکمت و دانائی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج. ولكنه صرح بالتحديث عند أحمد، [مكتبه الشامله نمبر: 2746]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6145]، [الأدب المفرد 864]، [أبوداؤد 5010]، [ابن ماجه 3755]، [شرح السنة 3398]
وضاحت: (تشریح حدیث 2738) قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے فرمایا: « ﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ﴾[الشعراء: 224] » نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ اگر شعر میں حقیقت اور سچائی و دانائی ہے تو کوئی حرج نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج. ولكنه صرح بالتحديث عند أحمد
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، حدثنا حنظلة، عن سالم عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان يمتلئ جوف احدكم قيحا او دما خير من ان يمتلئ شعرا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا أَوْ دَمًا خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ اور خون سے بھرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کو شعر سے بھرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2747]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6154]، [أبوداؤد 5009]، [أبويعلی 5516]
وضاحت: (تشریح حدیث 2739) اس وعید سے مقصود ایسے اشعار اور غزلیں ہیں جو عشق و فسق سے بھری ہوں، یا جن میں بے جا مدح و ذم ہو، اچھا شعر کہنا اور یاد کرنا اس وعید میں داخل نہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو شعر کہنے کی اجازت دی، اور حدیث کے اس ٹکڑے «إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً» سے بھی شعر و شاعری کا جواز نکلتا ہے۔ واللہ اعلم۔