سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
46. باب فَضْلِ مَنْ أَعْتَقَ أَمَةً ثُمَّ تَزَوَّجَهَا:
46. جو شخص لونڈی کو آزاد کرے پھر اسی سے شادی کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2281
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا هشيم، عن صالح بن صالح بن حي الهمداني، قال: كنت عند الشعبي فاتاه رجل من اهل خراسان، فقال: يا ابا عمرو، إن من قبلنا من اهل خراسان يقولون في الرجل: إذا اعتق امته ثم تزوجها، فهو كالراكب بدنته؟ فقال الشعبي: حدثني ابو بردة بن ابي موسى، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين: رجل من اهل الكتاب آمن بنبيه، ثم ادرك النبي صلى الله عليه وسلم فآمن به واتبعه، وعبد مملوك ادى حق الله وحق مواليه، فله اجران، ورجل كانت له امة فغذاها، فاحسن غذاءها، وادبها فاحسن تاديبها فاعتقها وتزوجها، فله اجران". ثم قال للرجل: خذ هذا الحديث بغير شيء، فقد كان يرحل فيما دون هذا إلى المدينة، فقال هشيم: افادوني بالبصرة فاتيته فسالته عنه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ الشَّعْبِيِّ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَمْرٍو، إِنَّ مَنْ قِبَلَنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ يَقُولُونَ فِي الرَّجُلِ: إِذَا أَعْتَقَ أَمَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا، فَهُوَ كَالرَّاكِبِ بَدَنَتَهُ؟ فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، ثُمَّ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، وَعَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَغَذَّاهَا، فَأَحْسَنَ غِذَاءَهَا، وَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا فَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ". ثُمَّ قَالَ لِلرَّجُلِ: خُذْ هَذَا الْحَدِيثَ بِغَيْرِ شَيْءٍ، فَقَدْ كَانَ يُرْحَلُ فِيمَا دُونَ هَذَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ هُشَيْمٌ: أَفَادُونِي بِالْبَصْرَةِ فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ.
صالح بن صالح بن حیی ہمدانی نے کہا: میں امام شعبی رحمہ اللہ کے پاس تھا کہ ایک خراسانی آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے ابوعمرو! ہمارے یہاں اہل خراسان کہتے ہیں کہ جو آدمی اپنی لونڈی کو آزاد کرے پھر اسی سے شادی کرے وہ اپنے اونٹ پر سوار آدمی کی طرح ہے۔ امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوبردہ بن ابوموسیٰ نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی ہیں جن کو دوہرا (ڈبل) اجر دیا جائے گا۔ ایک تو وہ آدمی جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی، دوسرا وہ غلام ہے جس نے اللہ کا بھی حق ادا کیا اور اپنے مالکوں کا بھی، اس کے لئے ڈبل اجر و ثواب ہے، تیسرا وہ آدمی جس کے پاس لونڈی ہو، اس نے اس لونڈی کو اچھی سے اچھی غذا کھلائی اور اچھے سے اچھا ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کیا اور اسی سے شادی کر لی، اس کے لئے بھی ڈبل اجر و ثواب ہے۔ پھر امام شعبی رحمہ اللہ نے صالح سے کہا: اس حدیث کو یاد کر لو جو ہم نے تمہیں بلا اجرت مفت میں سنا دی ہے، ورنہ لوگ ایسی حدیث سننے کے لئے مدینہ جایا کرتے تھے۔ ہشیم نے کہا: بصرہ میں مجھے اس حدیث کی خبر لگی تو میں ان کے پاس گیا اور اس حدیث کے بارے میں پوچھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2290]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 97]، [مسلم 154]، [ترمذي 1116]، [نسائي 3344]، [ابن ماجه 1956]، [أبويعلی 7256]، [ابن حبان 227]، [الحميدي 786]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2280)
امام عامر الشعبی رحمہ اللہ کوفہ میں تھے اور کوفہ سے مدینہ کا راستہ دو ماہ کا تھا، مطلب یہ کہ ایک حدیث سننے کے لئے اگلے لوگ دو دو مہینے کا سفر کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، اگر وہ اتنی محنتیں نہ کرتے تو ہم تک دین کیونکر پہنچتا۔
اس حدیث میں محل الشاہد وہ آدمی ہے جو اپنی لونڈی کو اچھی تعلیم و تربیت دے، اچھا کھلائے، پہنائے پھر آزاد کر کے خود ہی شادی کر لے، تو ایسے صالح اور نیک آدمی کے لئے دوہرا اجر ہے، ایک اجر تعلیم کا، دوسرا اجر آزاد کرنے کا، اس سے اپنے زیرِ سرپرستی بچیوں کی تربیت کی فضیلت معلوم ہوئی جیسا کہ گذر چکا ہے۔
اہلِ حدیث کا مسلک یہ ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا اور آزادی کو مہر مقرر کرنا جائز ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کا انکار کیا ہے۔
اور حدیث اُم المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔
دوسرا آدمی جس کا اجر دو گنا ہو گا وہ یہودی یا نصرانی ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا، پھر مسلمان ہو کر متبع خاتم الرسل ہوا، اور تیسرا وہ بندہ و غلام جو اپنے مالک کی خدمت بھی کرتا ہے اور اللہ کی عبادت میں بھی کمی نہیں کرتا، اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2282
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، عن شعبة، عن صالح بن حي، عن الشعبي، عن ابي بردة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحو هذا الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ.
ابوبردہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی حدیث بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2291]»
تخریج اور تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
47. باب الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فَيَمُوتُ قَبْلَ أَنْ يَفْرِضَ لَهَا:
47. کوئی آدمی عورت سے شادی کرے اور اس کا مہر مقرر کرنے سے پہلے انتقال کر جائے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2283
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، في رجل تزوج امراة ولم يكن فرض لها شيئا، ولم يدخل بها، ومات عنها، قال فيها: لها صداق نسائها، وعليها العدة، ولها الميراث، قال معقل الاشجعي: "قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بروع بنت واشق امراة من بني رواس بمثل ما قضيت". قال: ففرح بذلك، قال محمد، وسفيان: ناخذ بهذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَكُنْ فَرَضَ لَهَا شَيْئًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَمَاتَ عَنْهَا، قَالَ فِيهَا: لَهَا صَدَاقُ نِسَائِهَا، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، قَالَ مَعْقِلٌ الْأَشْجَعِيُّ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي رُوَاسٍ بِمِثْلِ مَا قَضَيْتَ". قَالَ: فَفَرِحَ بِذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ، وَسُفْيَانُ: نَأْخُذُ بِهَذَا.
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی لیکن اس کا مہر مقرر نہیں کیا اور نہ اس سے صحبت کی اور انتقال کر گیا۔ اس کے بارے میں انہوں نے کہا: اس کے لئے مہر مثل نساء ہوگا اور اس کو عدت گزارنی ہو گی اور اس کو وراثت میں حصہ بھی ملے گا۔ سیدنا معقل اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بروع بنت واشق بنورواس کی ایک عورت کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا جیسا کہ آپ نے کہا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سن کر خوش ہو گئے۔ محمد اور سفیان نے کہا: ہمارا بھی یہی مسلک ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2292]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2114]، [ترمذي 1145]، [نسائي 3354]، [ابن ماجه 1891]، [ابن حبان 4098]، [الموارد 1263]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2281 سے 2283)
اس روایت و حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح میں اگر مہر کا ذکر نہ بھی کیا جائے تب بھی نکاح صحیح ہے، اور اگر ایسا شوہر صحبت کرنے سے پہلے ہی انتقال کر جائے تو عورت اس کی بیوی مانی جائے گی اور اس کو اس کے خاندان و قبیلے کی عورتوں جیسا مہربھی ملے گا، میراث بھی پائے گی اور عدت بھی گزارے گی۔
ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اس قضیہ کا کوئی مخالف فتویٰ نہیں، اس لئے اس پر عمل ضروری ہے۔
اس روایت سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی دینی سمجھ اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور سیدنا معقل بن سنان الاشجعی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کا خوش ہونا طبیعی امر تھا۔
ایک روایت نسائی کی ہے کہ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اتنے خوش ہوئے کہ انہیں کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا گیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع
48. باب مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ:
48. رضاعت سے جو حرام ہو جاتے ہیں ان کا بیان
حدیث نمبر: 2284
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، حدثنا روح، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر بن عمرو بن حزم، عن عمرة، عن عائشة: انها كانت مع النبي صلى الله عليه وسلم في بيت حفصة، فسمعت صوت إنسان، قالت: قلت: يا رسول الله، سمعت صوت إنسان في بيتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اراه فلانا لعم حفصة من الرضاعة"، قالت عائشة: يا رسول الله، ولو كان فلان حيا لعمها من الرضاعة دخل علي؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"نعم، يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، فَسَمِعَتْ صَوْتَ إِنْسَانٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتَ إِنْسَانٍ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَعَمْ، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں کہ ایک آدمی کی آواز سنی اور کہا: یا رسول! میں نے آپ کے گھر میں کسی آدمی کے داخل ہونے کی آواز سنی ہے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے وہ فلاں آدمی ہوگا۔، وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! میرے رضائی چچا اگر زندہ ہوتے تو وہ میرے گھر میں آ سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، رضاعت سے بھی ویسی ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسی ولادت سے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2293]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2646]، [مسلم 1444]، [نسائي 3313]، [أبويعلی 4374]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2283)
یعنی جس طرح ولادت کی وجہ سے بھائی بہن ہوتے ہیں، دودھ پینے کی وجہ سے بھی بھائی بہن بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے محرم ہوتے ہیں جن کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا۔
رضاعت کے باب میں یہ پہلی حدیث ہے اور اس کا مطلب ظاہر ہے۔
رضاعت سے مراد عورت کے پستان سے بچے کا مخصوص مدت میں دودھ چوس کر پینا ہے، اور دودھ پینے اور پلانے والی کی حرمت کا یہی سبب اور ثبوت ہے، اس سے دودھ پینے والا بچہ پلانے والی کا بچہ قرار پاتا ہے، اور وہ بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے، اب اس عورت سے ہمیشہ کے لئے اس کا نکاح حرام ہے، پھر یہ حرمت دودھ پینے والے کی اولاد میں اور دودھ پینے اور پلانے والی کی اولاد، اور اس کے شوہر کی اولاد یا اس کے آقا کی اولاد جس سے اس نے وطی کی ہوگی پرمشتمل ہوگی۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
اس حدیث سے ایک سوکن کا دوسری سوکن کے گھر جانا، اخلاق و محبت سے رہنا ثابت ہوا، اور رضاعی چچا کی حرمت ثابت ہوئی، اور عام قاعدہ معلوم ہوا کہ جو رشتے نسلاً حرام ہیں رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
اور امّت کا اس پر اجماع ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع
حدیث نمبر: 2285
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، قال: اخبرتني عائشة: ان عمها اخا ابي القعيس جاء يستاذن عليها بعدما ضرب الحجاب، فابت ان تاذن له حتى ياتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستاذنه، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم ذكرت ذلك له، فقالت: جاء عمي اخو ابي القعيس فرددته حتى استاذنك، قال: "او ليس بعمك؟"، قالت: إنما ارضعتني المراة ولم يرضعني الرجل، فقال:"إنه عمك فليلج عليك"، قال: وكانت عائشة تقول: يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ: أَنَّ عَمَّهَا أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا بَعْدَمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ، فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْتَأْذِنَهُ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَتْ: جَاءَ عَمِّي أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ فَرَدَدْتُهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ، قَالَ: "أَوَ لَيْسَ بِعَمِّكِ؟"، قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِيَ الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، فَقَالَ:"إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ"، قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ان کے (رضاعی) چچا ابوقعیس کے بھائی (افلح) حکم حجاب کے بعد ان کے پاس آئے، داخل ہونے کی اجازت چاہتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کریں، پھر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا اور عرض کیا کہ میرے رضاعی چچا ابوقعیس کے بھائی آئے (اور اندر آنے کی اجازت چاہی) تو میں نے انہیں واپس کر دیا یہاں تک کہ آپ سے پوچھ نہ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ تمہارے رضاعی چچا نہیں ہیں؟ عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا تھا آدمی نے نہیں (پھر آدمی یعنی ابوقعیس یا ان کے بھائی کی حرمت کیسے ثابت ہوئی؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (افلح) تمہارے چچا ہوئے، وہ تمہارے پاس اندر آ سکتے ہیں۔ عروہ نے کہا: اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں: جو ولادت سے حرام ہوتا ہے وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2294]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2644]، [مسلم 1445])، [ترمذي 1148]، [أبويعلی 4501]، [ابن حبان 4109]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2284)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ جس عورت کا دودھ پی لے اس کا شوہر دودھ پینے والے کا باپ ہوگا، اب جو رشتے ماں باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
افلح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چچا اس لئے ہوئے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
اور دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے، اس لئے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی، اس لئے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
(شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2286
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا صدقة بن الفضل، حدثنا يحيى بن سعيد، عن مالك، حدثني عبد الله بن دينار، عن سليمان بن يسار، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو (رشتے) ولادت سے حرام ہو جاتے ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2295]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1442]، [نسائي 3302]، [أبويعلی 4374]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع
حدیث نمبر: 2287
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال مالك: وحدثني عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.(حديث مرفوع) قَالَ مَالِكٌ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مثلِ سابق روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2296]»
تخریج اور ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔ مزید دیکھئے: [الموطأ للإمام مالك، كتاب الرضا ع 1]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2285 سے 2287)
ان تمام روایات کے پیشِ نظر امّت کا اجماع ہے اس پر کہ دودھ حرام کر دیتا ہے جیسے ولادت حرام کر دیتی ہے، یعنی دودھ پلانے والی دودھ پینے والے کی ماں ہو جاتی ہے، اور ان میں نکاح ابداً حرام ہو جاتا ہے، اور دودھ پینے والے کو دیکھنا اس کا حلال ہو جاتا ہے، اور خلوت اور سفر کرنا اس کے ساتھ درست ہوتا ہے، اور ان کے سوا اور احکام ماں ہونے کے جاری نہیں، یعنی ماں کی طرح وہ لڑکے کی وارث نہیں ہوتی، نہ لڑکا اس کا وارث ہوتا ہے، اور نہ کسی کا نفقہ دوسرے پر واجب ہوتا ہے مثل ماں کے، اور نہ لڑکے کی گواہی اس پر رد کی جاتی ہے، اور نہ رضاعی ماں سے قصاص ساقط ہوتا ہے، اگر دودھ کے بچے کو مار ڈالے۔
غرض ان حکموں میں وہ دونوں مثل اجنبی کے ہیں، اور اسی طرح اجماع ہے کہ حرمت نکاح کی پھیل جاتی ہے مرضعہ اور اولاد رضیع میں اور رضیع اولاد مرضعہ میں، اور اس حکم میں وہ رضیع گویا مرضعہ کی اولاد ہے، اور اسی مرضعہ کا شوہر جس کی صحبت سے یہ دودھ ہوا تھا، خواہ شوہر نکاحی ہو یا ملک یمین کی راہ سے، وہ رضیع کا باپ ہو جاتا ہے اور اس کی اولاد رضیع کی بھائی بہن ہو جاتی ہے، اور مرضعہ کے شوہر کے بھائی رضیع کے چچا ہو جاتے ہیں، اور اس کی بہن رضیع کی پھوپھیاں ہو جاتی ہیں، اور اولاد رضیع کی مرضعہ کے شوہر کی اولاد ہو جاتی ہے۔
(وحیدی، شرح مسلم 1460)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع
49. باب كَمْ رَضْعَةً تُحَرِّمُ:
49. کتنی بار کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے؟
حدیث نمبر: 2288
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا تحرم المصة والمصتان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2297]»
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم وغیرہ میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1450]، [أبوداؤد 2063]، [ترمذي 1150]، [نسائي 3310]، [ابن ماجه 1941]، [أبويعلی 4710]، [ابن حبان 4227]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2287)
«المصة: مص» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چوسنے کے ہیں، ایک دو مرتبہ چوسنا یعنی تھوڑا سا پینا، اور ایک روایت میں ہے ایک دفعہ پینے یا دو مرتبہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، «رضعة» اور «املاجة» بھی «مصة» کی طرح ہم معنی ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بچہ جب ماں کے پستان کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر عارضہ کے اپنی خوشی و مرضی سے پستان کو چھوڑ دیتا ہے اسے «رضعة» یعنی ایک بار کا دودھ پینا یا چوسنا کہتے ہیں۔
پستان کا چھوڑنا کسی عارض کی بنا پر جیسے سانس لینے کے لئے، یا معمولی سا آرام حاصل کرنے کے لئے، یا کسی اور چیز کے لئے جو اسے دوسری طرف مشغول کر دے پھر جلدی ہی دوبارہ پینا یا چوسنا شروع کر دے، اس طرح ایک یا دو مرتبہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
بعض علماء کے نزدیک تین بار پینے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے، وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔
تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 2289
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن ام الفضل: ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني قد تزوجت امراة وعندي اخرى، فزعمت الاولى انها ارضعت الحدثى، فقال: "لا تحرم الإملاجة ولا الإملاجتان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً وَعِنْدِي أُخْرَى، فَزَعَمَتِ الْأُولَى أَنَّهَا أَرْضَعَتِ الْحُدْثَى، فَقَالَ: "لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ وَلَا الْإِمْلَاجَتَانِ".
سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے شادی کی اور میرے پاس دوسری بیوی بھی تھی، تو اس پہلی بیوی نے کہا کہ میں نے اس نئی دلہن کو ایک یا دو بار دودھ چوسایا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بار یا دو بار چوسانے سے حرمت نہیں ہوتی۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2298]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1451]، [نسائي 3308]، [أبويعلی 7072]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 2290
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسحاق، اخبرنا روح، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة، عن عائشة، قالت: "نزل القرآن بعشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهن مما يقرا من القرآن".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "نَزَلَ الْقُرْآنُ بِعَشْرِ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہوا کہ دس بار دودھ پینے سے حرمت ہو جاتی ہے (یعنی نکاح حرام ہو جاتا ہے)، پھر یہ حکم پانچ بار دودھ پینے سے منسوخ کر دیا گیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، اس وقت پانچ کی معروف تعداد قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2299]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1452]، [أبوداؤد 2062]، [ترمذي 1150]، [نسائي 3307]، [ابن ماجه 1944]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2288 سے 2290)
معلومات سے مراد محقق و ثابت شدہ ہے، یعنی جب رضاعت مشکوک ہو تو حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور قرآن میں پڑھی جانے کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کی تعداد کا نسخ اتنی تاخیر سے ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش آ گیا اور بعض لوگ پھر بھی ان پانچ کی تعداد کو قرآن سمجھ کر تلاوت کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب ان کو نسخ کا حکم معلوم ہوا تو اس سے انہوں نے رجوع کر لیا اور سب متفق ہو گئے کہ اب اس کی تلاوت نہیں کی جائے گی۔
رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے، اس میں اختلاف ہے۔
بعض نے کہا کہ یہ حکم دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ ثابت ہو جاتا ہے یعنی اس میں قلیل و کثیر کی کوئی قید نہیں۔
دوسرا قول یہ ہے کہ رضاعت کا حکم تین بار پینے سے ثابت ہوتا ہے، دو دفعہ پینے سے نہیں، جیسا کہ حدیث «لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ» سے واضح ہوتا ہے۔
تیسرا قول ہے کہ پانچ بار بچہ دودھ پی لے تب ہی رضاعت اور حرمت ثابت ہوتی ہے، یہی قول زیادہ قوی اور راجح ہے۔
اس باب میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آخری حدیث میں نسخ کا ذکر ہے جو قرآن پاک میں تین انواع پر مشتمل ہے۔
پہلا یہ کے حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے جیسے دس مرتبہ دودھ پینے والی آیت۔
دوسرے یہ کہ تلاوت منسوخ ہوگئی لیکن حکم باقی ہے جیسے پانچ مرتبہ دودھ پینے کی آیت اور آیت الرجم «الشيخ والشيخه إذا زنيا فارجموهما.» اور تیسرے یہ کہ حکم منسوخ ہوگیا لیکن تلاوت ابھی باقی ہے اور قرآن پاک میں ایسی بہت سی آیات ہیں جیسے آیتِ وصیت: « ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ .....﴾ [البقره: 240] » وغیرہ آیات قرآنیہ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع

Previous    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.