(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، في رجل تزوج امراة ولم يكن فرض لها شيئا، ولم يدخل بها، ومات عنها، قال فيها: لها صداق نسائها، وعليها العدة، ولها الميراث، قال معقل الاشجعي: "قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بروع بنت واشق امراة من بني رواس بمثل ما قضيت". قال: ففرح بذلك، قال محمد، وسفيان: ناخذ بهذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَكُنْ فَرَضَ لَهَا شَيْئًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَمَاتَ عَنْهَا، قَالَ فِيهَا: لَهَا صَدَاقُ نِسَائِهَا، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، قَالَ مَعْقِلٌ الْأَشْجَعِيُّ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي رُوَاسٍ بِمِثْلِ مَا قَضَيْتَ". قَالَ: فَفَرِحَ بِذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ، وَسُفْيَانُ: نَأْخُذُ بِهَذَا.
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی لیکن اس کا مہر مقرر نہیں کیا اور نہ اس سے صحبت کی اور انتقال کر گیا۔ اس کے بارے میں انہوں نے کہا: اس کے لئے مہر مثل نساء ہوگا اور اس کو عدت گزارنی ہو گی اور اس کو وراثت میں حصہ بھی ملے گا۔ سیدنا معقل اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بروع بنت واشق بنورواس کی ایک عورت کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا جیسا کہ آپ نے کہا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سن کر خوش ہو گئے۔ محمد اور سفیان نے کہا: ہمارا بھی یہی مسلک ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2281 سے 2283) اس روایت و حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح میں اگر مہر کا ذکر نہ بھی کیا جائے تب بھی نکاح صحیح ہے، اور اگر ایسا شوہر صحبت کرنے سے پہلے ہی انتقال کر جائے تو عورت اس کی بیوی مانی جائے گی اور اس کو اس کے خاندان و قبیلے کی عورتوں جیسا مہربھی ملے گا، میراث بھی پائے گی اور عدت بھی گزارے گی۔ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اس قضیہ کا کوئی مخالف فتویٰ نہیں، اس لئے اس پر عمل ضروری ہے۔ اس روایت سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی دینی سمجھ اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور سیدنا معقل بن سنان الاشجعی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کا خوش ہونا طبیعی امر تھا۔ ایک روایت نسائی کی ہے کہ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اتنے خوش ہوئے کہ انہیں کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2292]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2114]، [ترمذي 1145]، [نسائي 3354]، [ابن ماجه 1891]، [ابن حبان 4098]، [الموارد 1263]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع