سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
48. باب مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ:
رضاعت سے جو حرام ہو جاتے ہیں ان کا بیان
حدیث نمبر: 2287
قَالَ مَالِكٌ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مثلِ سابق روایت ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2296]»
تخریج اور ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔ مزید دیکھئے: [الموطأ للإمام مالك، كتاب الرضا ع 1]
وضاحت: (تشریح احادیث 2285 سے 2287)
ان تمام روایات کے پیشِ نظر امّت کا اجماع ہے اس پر کہ دودھ حرام کر دیتا ہے جیسے ولادت حرام کر دیتی ہے، یعنی دودھ پلانے والی دودھ پینے والے کی ماں ہو جاتی ہے، اور ان میں نکاح ابداً حرام ہو جاتا ہے، اور دودھ پینے والے کو دیکھنا اس کا حلال ہو جاتا ہے، اور خلوت اور سفر کرنا اس کے ساتھ درست ہوتا ہے، اور ان کے سوا اور احکام ماں ہونے کے جاری نہیں، یعنی ماں کی طرح وہ لڑکے کی وارث نہیں ہوتی، نہ لڑکا اس کا وارث ہوتا ہے، اور نہ کسی کا نفقہ دوسرے پر واجب ہوتا ہے مثل ماں کے، اور نہ لڑکے کی گواہی اس پر رد کی جاتی ہے، اور نہ رضاعی ماں سے قصاص ساقط ہوتا ہے، اگر دودھ کے بچے کو مار ڈالے۔
غرض ان حکموں میں وہ دونوں مثل اجنبی کے ہیں، اور اسی طرح اجماع ہے کہ حرمت نکاح کی پھیل جاتی ہے مرضعہ اور اولاد رضیع میں اور رضیع اولاد مرضعہ میں، اور اس حکم میں وہ رضیع گویا مرضعہ کی اولاد ہے، اور اسی مرضعہ کا شوہر جس کی صحبت سے یہ دودھ ہوا تھا، خواہ شوہر نکاحی ہو یا ملک یمین کی راہ سے، وہ رضیع کا باپ ہو جاتا ہے اور اس کی اولاد رضیع کی بھائی بہن ہو جاتی ہے، اور مرضعہ کے شوہر کے بھائی رضیع کے چچا ہو جاتے ہیں، اور اس کی بہن رضیع کی پھوپھیاں ہو جاتی ہیں، اور اولاد رضیع کی مرضعہ کے شوہر کی اولاد ہو جاتی ہے۔
(وحیدی، شرح مسلم 1460)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع