اس سند سے بھی حسن نے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے ویسی ہی حدیث بیان کی جیسی اوپر ذکر کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 2240]» اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن کا سماع سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [الطيالسي 1555]، [أحمد 11/5، 12، 18]، [ابن الجارود 622]، [الحاكم 35/2]، [طبراني 203/7، 6841]، [وانظر تلخيص الحبير 165/3]
وضاحت: (تشریح احادیث 2229 سے 2231) گرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن صحیح یہی ہے جو حدیث میں ذکر ہوا کہ ایک خاتون کے دو ولی جب دو مختلف آدمیوں سے مختلف اوقات میں نکاح کر دیں تو وہ عورت اس آدمی کی بیوی قرار پائے گی جس سے پہلے نکاح کیا گیا ہو اور دوسرا نکاح از خود باطل قرار پائے گا، کیونکہ شریعت نے نکاح پر نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے، اور اگر دونوں نکاح بیک وقت کئے جائیں تو دونوں باطل قرار پائیں گے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں، اسی طرح بیع کا معاملہ ہے، جب ایک چیز ایک شخص کے ہاتھ بک گئی تو دوسرے ولی کا بیچنا ناجائز ہوگا۔ اگر بیچا تو پہلے ولی کا ہی اعتبار ہوگا۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز، عن الربيع بن سبرة: ان اباه حدثه: انهم ساروا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع , فقال:"استمتعوا من هذه النساء". والاستمتاع عندنا: التزويج، فعرضنا ذلك على النساء، فابين ان لا نضرب بيننا وبينهن اجلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"افعلوا". فخرجت انا وابن عم لي معه برد، ومعي برد، وبرده اجود من بردي، وانا اشب منه، فاتينا على امراة فاعجبها شبابي، واعجبها برده، فقالت: برد كبرد، وكان الاجل بيني وبينها عشرا، فبت عندها تلك الليلة، ثم غدوت، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم بين الركن والباب، فقال:"يا ايها الناس، إني قد كنت اذنت لكم في الاستمتاع من النساء، الا وإن الله قد حرمه إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء، فليخل سبيلها، ولا تاخذوا مما آتيتموهن شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيز، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ: أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ: أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجَّةِ الْوَدَاعِ , فَقَالَ:"اسْتَمْتِعُوا مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ". وَالِاسْتِمْتَاعُ عِنْدَنَا: التَّزْوِيجُ، فَعَرَضْنَا ذَلِكَ عَلَى النِّسَاءِ، فَأَبَيْنَ أَنْ لَا نَضْرِبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"افْعَلُوا". فَخَرَجْتُ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي مَعَهُ بُرْدٌ، وَمَعِي بُرْدٌ، وَبُرْدُهُ أَجْوَدُ مِنْ بُرْدِي، وَأَنَا أَشَبُّ مِنْهُ، فَأَتَيْنَا عَلَى امْرَأَةٍ فَأَعْجَبَهَا شَبَابِي، وَأَعْجَبَهَا بُرْدُهُ، فَقَالَتْ: بُرْدٌ كَبُرْدٍ، وَكَانَ الْأَجَلُ بَيْنِي وَبَيْنَهَا عَشْرًا، فَبِتُّ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ غَدَوْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ، فَقَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ، فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهَا، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا".
ربیع بن سبرہ سے مروی ہے کہ ان کے والد (سیدنا سبرہ رضی اللہ عنہ) نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجۃ الوداع کو جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان عورتوں سے متعہ کر لو“، اور متعہ کا مطلب ہمارے نزدیک نکاح کرنا تھا۔ ہم نے کچھ عورتوں پر یہ امر پیش کیا، انہوں نے بنا مدت معینہ مقرر کئے ہم سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدت مقرر کر لو“، چنانچہ میں اور میرا چچا زاد بھائی اپنی اپنی چادر لے کر نکل پڑے، میرے چچا زاد بھائی کی چادر میری چادر سے اچھی تھی لیکن میں اس کی بہ نسبت زیادہ خوبرو جوان تھا، ہم دونوں ایک عورت کے پاس پہنچے، اس کو میرا شباب اچھا لگا اور بھائی کی چادر اچھی لگی، اس نے کہا: چادر چادر برابر ہے (لہٰذا اس نے سبرہ کو پسند کر لیا) اور ہمارے درمیان دس دن تک مدت قرار پائی، میں نے وہ رات اس کے پاس گزاری، صبح کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے فرما رہے تھے: ”اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کا اذن دیا تھا لیکن خبردار رہو کہ الله تعالیٰ نے اس کو حرام کر دیا ہے، قیامت تک کے لئے، اب جس کے پاس ان متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ اس کو دے چکا ہے وہ ان سے واپس نہ لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث عند مسلم في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2241]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1406]، [أبوداؤد 2072]، [نسائي 3368]، [ابن ماجه 1962]، [أبويعلی 938، 939]، [ابن حبان 4144]، [الحميدي 870]، [أحمد 404/3]، [طبراني 107/7، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث عند مسلم في النكاح
(حديث مرفوع) حدثنا محمد حدثني ابن عيينة، عن الزهري، عن الحسن، وعبد الله، عن ابيهما، قال: سمعت عليا , يقول لابن عباس:"إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة: متعة النساء، وعن لحوم الحمر الاهلية عام خيبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِمَا، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا , يَقُولُ لِابْنِ عَبَّاسٍ:"إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ: مُتْعَةِ النِّسَاءِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ عَامَ خَيْبَرَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے خیبر کے سال منع فرما دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2243]» اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ تخریج حدیث رقم (2032) پرگذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2231 سے 2234) متعہ کسی عورت سے ایک مقررہ وقت تک کے لئے نکاح کرنے کو کہتے ہیں، جب مقررہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو ان کے درمیان خود بخود جدائی ہو جاتی ہے۔ اس طرح نکاح کرنا اب قیامت تک کے لئے حرام ہے، اس پر تمام ائمہ اور علماء و فقہاء کا اجماع ہے سوائے چند روافض کے۔ متعہ کب حرام ہوا اس بارے میں مختلف روایات کے سبب مختلف اقوال ہیں، پہلی حدیث میں ہے کہ حجۃ الوداع میں اس کی قطعی حرمت کا اعلان ہوا، حدیث صحیح ہے لیکن راوی کو وہم ہوا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ فتح مکہ 8ھ میں اس کو حرام قرار دیا گیا، یہی زیادہ صحیح ہے۔ تیسری روایت میں ہے کہ خیبر کے سال سن 7ھ کا ذکر ہے، اور یہ روایت بھی صحیح متفق علیہ ہے اس لئے علماء نے کہا متعہ کی حرمت و اجازت دو مرتبہ ہوئی یعنی خیبر اور فتح مکہ کے دن۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے بڑے مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حرمت صرف ایک بار فتح مکہ ہی میں ہوئی اس سے پہلے متعہ جائز تھا جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾[النساء: 24] » اور اب قیامت تک باجماعِ امّت مدتِ معینہ کے لئے کسی عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [زاد المعاد 111/5] ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پالتو گدھے کا گوشت بھی حرام ہے جو بلاشبہ غزوۂ خیبر میں حرام ہوا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
امیرالمومنین سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احرام والا آدمی (حالت احرام میں) نہ خود اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2234) مسلم کی روایت میں ہے: اور نہ احرام کی حالت میں پیغام دے۔ ابن حبان میں ہے: اور نہ اس کے پیغامِ نکاح پر پیغام دیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ احرام میں نکاح کرنا یا کرانا دونوں کام منع ہیں حتیٰ کہ پیغام بھی دینا منع ہے۔ اہلِ حدیث، امام شافعی و امام احمد رحمہما اللہ اور جمہور علماء کا یہی مسلک ہے لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ محرم کا حالتِ احرام میں نکاح کرنا جائز ہے اور ان کا استدلال سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالتِ احرام میں نکاح کیا۔ علمائے کرام نے اس کو رد کیا اور بہت سے جوابات تحریر کئے ہیں جن میں سے چند ایک جوابات یہ ہیں: مذکورہ بالا حدیث «المحرم لا ينكح .....» قول ہے اور بفرض صحت حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔ قواعدِ حدیث کے مطابق قول فعل پر مقدم ہوتا ہے، نیز یہ کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو، نیز بہت سے صحابہ کرام و سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ وغیرہ نے کہا (جو سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت قاصد و پیغام رسان تھے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حلال تھے، اس کو احمد و ترمذی رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے، نیز یہ کہ اس نکاح کے وقت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کم سن اور چھوٹے نو یا دس سال کے تھے، ہو سکتا ہے کہ انہیں وہم ہوا ہو۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [تحفة الأحوذي 89/2] ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، حدثنا عبد العزيز هو: ابن محمد، عن يزيد بن عبد الله، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، قال: سالت عائشة كم كان صداق ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: "كان صداقه لازواجه اثنتي عشرة اوقية، ونشا"، وقالت: اتدري ما النش؟. قال: قلت: لا، قالت:"نصف اوقية، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لازواجه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ: ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَمْ كَانَ صَدَاقُ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَنَشًّا"، وَقَالَتْ: أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟. قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَتْ:"نِصْفُ أُوقِيَّةٍ، فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ نش کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: آدھا اوقیہ، یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن نعيما توبع عليه فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2245]» یہ سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1426]، [أبوداؤد 2105]، [نسائي 3347]، [ابن ماجه 1886]، [أحمد 93/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 2235) مسلم شریف میں ہے: یہ پانچ سو درہم ہوئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر تھا۔ اس حدیث سے ازواجِ مطہرات کے مہر کی مقدار معلوم ہوئی جو پانچ سو درہم ہوا کرتا تھا، مہر عورت کا حق ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾[النساء: 4] » یعنی ”عورتوں کو ان کے مہر کا عطیہ ادا کرو۔ “ مہر کتنا ہونا چاہیے اس سلسلہ میں شارع حکیم نے کوئی تحدید نہیں کی، قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں کہیں نہیں کہا گیا کہ مہر اتنا ہونا چاہیے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مہر میں مغالاۃ نہ ہو، اتنا زیادہ نہ ہو کہ شوہر ادائیگی سے قاصر رہے۔ ایک حدیث میں ہے: «خَيْرُ الصَّدَاقَ أَيْسُرُهُ.» یعنی ”بہترین مہر وہ ہے جس کا ادا کرنا نہایت سہل و آسان ہو۔ “[أبوداؤد وصححه الحاكم] ۔ ایک مرتبہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں کہا کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر نہ ہو، منبر سے اترتے ہی ایک عورت نے کہا: اے عمر! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: « ﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا﴾[النساء: 20] »”اور تم نے ان کو ڈھیر سارا (مہر) دیا ہو۔ “ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! مجھے معاف فرما، اور منبر پر آئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر دینے کومنع کیا تھا، جو جتنا چاہے اپنے مال میں سے عورت کو مہر ادا کرے۔ [رواه سعيد بن منصور فى السنن و أبويعلى بسند جيد] ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر گرچہ پانچ سو درہم تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کے بدلے آزادی، لوہے کی انگوٹھی، قرآن سکھانے پر بھی نکاح کرا دیا اور آزادیٔ تعلیم القرآن، لوہے کی انگوٹھی یا جوتے تک کو مہر قرار دیا، اس لئے علمائے کرام نے ہر وہ چیز جس سے منفعت حاصل ہو اس کا مہر ہونا جائز قرار دیا ہے۔ مہر میں دس یا تیس یا کم و بیش درہم کی تحدید بھی درست نہیں، بعض مما لک ہندوستان، پاکستان وغیرہ میں پانچ سو درہم کے مساوی روپئے جو کسی زمانے میں سوا سو روپے ہوا کرتے تھے، اس کو سنّت مان کر سوا سو روپے کا مہر رکھنا یہ بھی درست نہیں، بلکہ مہر فریقین کی مرضی سے شوہر کی حیثیت کے مطابق اور وقت اور حالات کی مناسبت سے ہونا چاہیے، فی زمانہ سو روپئے کی کوئی قیمت نہیں اس لئے ہزار دو ہزار پانچ ہزار روپئے اگر شوہر کی حیثیت سے زیادہ نہ ہوں تو اتنا مہر رکھنے میں کوئی حرج ان شاء اللہ نہیں، ہاں اگر دولہا غریب ہے، اتنی رقم ادا نہیں کر سکتا تو مہر کم ہی رکھنا چاہے، ایسا نہیں کہ لاکھ دو لاکھ کا مہر صرف نام کے لئے رکھا جائے اور شوہر اسے زندگی بھر ادا نہ کرے، مہر کی دو قسمیں ہیں: مؤجل اور معجّل، مؤجل: یعنی تأخیر سے، کچھ دخول سے پہلے اور کچھ بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ معجّل: فوری طور پر پہلی ملاقات کے وقت ہی دینا چاہیے۔ اور مہر میں جو رقم دی جائے وہ صرف عورت (بیوی) کا حصہ ہے، اس میں باپ یا خاوند کا کوئی حصہ نہیں، عورت جو چاہے جس طرح چاہے خرچ کر سکتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن نعيما توبع عليه فيصح الإسناد
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا هشيم، عن منصور بن زاذان، عن ابن سيرين، عن ابي العجفاء السلمي، قال: سمعت عمر بن الخطاب خطب، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: "الا لا تغالوا في صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى عند الله، كان اولاكم بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اصدق امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته فوق اثنتي عشرة اوقية، الا وإن احدكم ليغالي بصداق امراته حتى يبقى لها في نفسه عداوة حتى يقول: كلفت عليك علق القربة او عرق القربة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمّ قَالَ: "أَلَا لَا تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، أَلَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيُغَالِي بِصَدَاقِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَبْقَى لَهَا فِي نَفْسِهِ عَدَاوَةٌ حَتَّى يَقُولَ: كَلِفْتُ علَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أَوْ عَرَقَ الْقِرْبَةِ".
ابوعجفاء سلمی نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: خبردار غلو اور زیادتی نہ کیا کرو عورتوں کے مہر میں، کیونکہ اگر (مہر میں غلو) دنیا میں عزت و شرف کا اور الله تعالیٰ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے پہلے اس بات کے مستحق ہوتے (یعنی بیویوں اور بیٹیوں کا مہر زیادہ رکھتے) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا اور کسی لڑکی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا، خبردار، سنو! تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے مہر میں غلو اور زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں بیوی کی طرف سے عداوت ہو جاتی ہے اور وہ کہنے لگتا ہے: میں نے تیرے لئے تکلیف اٹھائی جو مشک کی رسی اٹھانے کی طرح ہے یا مجھے پسینہ آیا مشک کے پانی کی طرح۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2246]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2105]، [نسائي 3347]، [ابن ماجه 1886]، [ابن حبان 4620]، [موارد الظمآن 1259]
وضاحت: (تشریح حدیث 2236) «عِلْقَ الْقِرْبَةِ» یا «عَرَقَ الْقِرْبَةِ» عربی زبان کا محاورہ ہے جس کا مقصود ہے کہ میں نے تمہارے لئے بڑی مشقت اٹھائی اور مجھے دانتوں پسینہ آ گیا۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس تقریر سے ثابت ہوا کہ مہر میں غلو اور زیادتی بالکل مستحسن نہیں، ہر کام اور ہر چیز میں عدل و میانہ روی ہی بہتر ہے، اور ان کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ اگر زیادہ مہر اچھائی ہوتی تو ہادیٔ اسلام کیوں اس میں کمی و کوتاہی کرتے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مہر میں زیادتی رنجش و عداوت اور لڑائی جھگڑے کا پیش خیمہ ہوتی ہے، لہٰذا شخصیت اور عادت و عرفِ عام کے مطابق مہر ہونا چاہیے۔ «(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)»
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا حماد بن زيد، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد قال: اتت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إنها وهبت نفسها لله ولرسوله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مالي في النساء من حاجة"، فقال رجل: زوجنيها، فقال:"اعطها ثوبا"، فقال: لا اجد، قال:"اعطها ولو خاتما من حديد"، قال: فاعتل له، فقال:"ما معك من القرآن؟"، قال: كذا وكذا، قال:"فقد زوجتكها على ما معك من القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَالِي فِي النِّسَاءِ مِنْ حَاجَةٍ"، فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيهَا، فَقَالَ:"أَعْطِهَا ثَوْبًا"، فَقَالَ: لَا أَجِدُ، قَالَ:"أَعْطِهَا وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"، قَالَ: فَاعْتَلَّ لَهُ، فَقَالَ:"مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟"، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ:"فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس نے اپنے نفس کو اللہ اور رسول کے لئے ہبہ کر دیا (یہ کنایہ تھا شادی کے لئے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اب عورتوں کی حاجت نہیں“، ایک صحابی نے عرض کیا: (آپ کو حاجت نہیں تو) اس سے میری شادی کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کو مہر میں کپڑ ا دیدو“، عرض کیا: میرے پاس اور کپڑے نہیں، فرمایا: ”کچھ تو دو چاہے وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ راوی نے کہا: اس سے بھی انہوں نے معذوری ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں کچھ قرآن پاک یاد ہے؟“ عرض کیا: فلاں فلاں سورت یاد ہے، فرمایا: ”جاؤ، میں نے اس کو تمہاری زوجیت میں دیا، اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2247]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2310، 5087]، [مسلم 1425]، [أبويعلی 7521]، [ابن حبان 4093]، [الحميدي 957]
وضاحت: (تشریح حدیث 2237) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑا، لوہے کی انگوٹھی اور قرآن کی تعلیم و حفظ مہر کے طور پر دی جا سکتی ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں دریافت فرماتے، اور صرف قرآن پڑھانے کو حقِ مہر قائم نہ کرتے، اور اسی سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ہر نفع بخش چیز کا مہر مقرر کرنا درست ہے، اور معمولی سے معمولی چیز بھی مہر بن سکتی ہے جیسے کپڑا اور لوہے کی انگوٹھی جس کی معمولی قیمت ہوتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مہر کا قیمت میں ہونا یا قیمت والی چیز ہی مہر ہو سکتی ہے، اس حدیث سے عورت کا کسی سے اپنی شادی کے لئے کہنا اور اپنے آپ کو شادی کے لئے پیش کرنا بھی ثابت ہوا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، وحجاج، قالا: حدثنا شعبة، قال: انبانا ابو إسحاق، قال: سمعت ابا عبيدة يحدث، عن عبد الله، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبة الحاجة: "الحمد لله او إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور انفسنا، من يهده الله، فلا مضل له ومن يضلل، فلا هادي له، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله"، ثم يقرا ثلاث آيات: يايها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102، يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تساءلون به والارحام إن الله كان عليكم رقيبا سورة النساء آية 1، يايها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا {70} يصلح لكم اعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما {71} سورة الاحزاب آية 70-71 ثم يتكلم بحاجته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَةَ الْحَاجَةِ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ أَوْ إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ، فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ، فَلَا هَادِيَ لَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، ثُمَّ يَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102، يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا {70} يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا {71} سورة الأحزاب آية 70-71 ثُمَّ يَتَكَلَّمُ بِحَاجَتِهِ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجت و ضرورت کا یہ خطبہ سکھایا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ يا إِنَّ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ............. وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ» یعنی سب تعریفیں یا بیشک سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اسی سے مغفرت و بخشش مانگتے ہیں اور اپنے نفسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جس کو الله تعالیٰ ہدایت سے نوازے اس کو پھر کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے اللہ ہی گمراہ کر دے اسے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، پھر یہ تین آیات تلاوت فرمائیں: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾» [آل عمران: 102/3] ، «﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾» [النساء: 1/4] «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ٭ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾»[الاحزاب: 70/33 -71] ، پھر اپنی حاجت بیان کرتے (یعنی اس کے بعد نکاح کا ایجاب و قبول کراتے)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2248]» اس روایت کی سند منقطع ہے، لیکن دوسری اسانید سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2118]، [ترمذي 1105]، [نسائي 1403]، [ابن ماجه 1892]، [أبويعلی 5233، 5234]
وضاحت: (تشریح حدیث 2238) اس حدیث میں نکاح کے خطبہ میں اس خطبہ اور تینوں آیات کے پڑھنے کا ثبوت ہے، اور یہ خطبہ صرف نکاح کے لئے خاص نہیں بلکہ ہر حاجت و ضرورت کے وقت پڑھنا چاہیے خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، عید کا اور وعظ و نصیحت کے لئے ہو، اہلِ ظاہر تو اس خطبہ کو واجب کہتے ہیں مگر باقی علمائے امّت نے اسے مسنون و مستحب کہا ہے، اگر خطبہ نہ بھی پڑھا جائے اور مجرد ایجاب و قبول ہو، شاہد اور ولی موجود ہوں ان کی رضامندی سے ایجاب وقبول ہو تب بھی نکاح صحیح ہوگا کیونکہ متعدد روایات میں خطبہ کا ذکر نہیں جیسا کہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی پچھلی حدیث میں صرف یہ کہا: جاؤ میں نے اس کو تمہاری زوجیت میں دیا۔ اور خطبہ کا ذکر نہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2249]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2721]، [مسلم 1418]، [أبوداؤد 2139]، [ترمذي 1127]، [نسائي 3281]، [ابن ماجه 1954]، [أبويعلی 1754]، [ابن حبان 4092]
وضاحت: (تشریح حدیث 2239) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شرائط سب سے زیادہ پوری کرنے کی مستحق ہیں وہ شروطِ نکاح ہیں، کیونکہ اس کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ سبل السلام میں ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں شرط طے کرنا جائز ہے اور انہیں پوری کرنا ضروری ہے۔ نکاح کی شرطوں سے کیا مراد ہے، اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ادائیگی مہر ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ زوجیت کے تقاضے میں عورت جس چیز کی مستحق ہے، اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ شروط جو نکاح پر آمادہ کرنے کے لئے مرد نے عورت سے طے کی ہوں اور شریعت میں ممنوع نہ ہوں، یہی زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ (شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن رحمہ اللہ)۔ قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے مراد وہ شرطیں ہیں جو عقدِ نکاح کے مخالف نہیں، جیسے مباشرت، نان و نفقہ سے متعلق شرطیں، اور اس قسم کی شرطیں کہ دوسرا نکاح نہ کرے گا، یا لونڈی نہ رکھے گا، یا سفر پر نہ لے جائے گا پوری کرنا ضروری نہیں، بلکہ یہ شرطیں لغو ہوں گی۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اہل الحدیث کا قول یہ ہے کہ ہر قسم کی شرط جس پر اتفاق ہو گیا ہو پوری کرنی ہوگی «(المؤمنون على شروطهم)» سوائے ان شرطوں کے جو کتاب و سنّت کے خلاف ہوں کیونکہ حدیث مطلق ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه