سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
21. باب الشَّرْطِ في النِّكَاحِ:
نکاح کی شرطوں کا بیان
حدیث نمبر: 2240
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ مِنَ الْفُرُوجِ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2249]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2721]، [مسلم 1418]، [أبوداؤد 2139]، [ترمذي 1127]، [نسائي 3281]، [ابن ماجه 1954]، [أبويعلی 1754]، [ابن حبان 4092]
وضاحت: (تشریح حدیث 2239)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شرائط سب سے زیادہ پوری کرنے کی مستحق ہیں وہ شروطِ نکاح ہیں، کیونکہ اس کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔
سبل السلام میں ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں شرط طے کرنا جائز ہے اور انہیں پوری کرنا ضروری ہے۔
نکاح کی شرطوں سے کیا مراد ہے، اس میں اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ادائیگی مہر ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ زوجیت کے تقاضے میں عورت جس چیز کی مستحق ہے، اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ شروط جو نکاح پر آمادہ کرنے کے لئے مرد نے عورت سے طے کی ہوں اور شریعت میں ممنوع نہ ہوں، یہی زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
(شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن رحمہ اللہ)۔
قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے مراد وہ شرطیں ہیں جو عقدِ نکاح کے مخالف نہیں، جیسے مباشرت، نان و نفقہ سے متعلق شرطیں، اور اس قسم کی شرطیں کہ دوسرا نکاح نہ کرے گا، یا لونڈی نہ رکھے گا، یا سفر پر نہ لے جائے گا پوری کرنا ضروری نہیں، بلکہ یہ شرطیں لغو ہوں گی۔
امام احمد رحمہ اللہ اور اہل الحدیث کا قول یہ ہے کہ ہر قسم کی شرط جس پر اتفاق ہو گیا ہو پوری کرنی ہوگی «(المؤمنون على شروطهم)» سوائے ان شرطوں کے جو کتاب و سنّت کے خلاف ہوں کیونکہ حدیث مطلق ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه