(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا هشيم، عن منصور بن زاذان، عن ابن سيرين، عن ابي العجفاء السلمي، قال: سمعت عمر بن الخطاب خطب، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: "الا لا تغالوا في صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى عند الله، كان اولاكم بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اصدق امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته فوق اثنتي عشرة اوقية، الا وإن احدكم ليغالي بصداق امراته حتى يبقى لها في نفسه عداوة حتى يقول: كلفت عليك علق القربة او عرق القربة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمّ قَالَ: "أَلَا لَا تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، أَلَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيُغَالِي بِصَدَاقِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَبْقَى لَهَا فِي نَفْسِهِ عَدَاوَةٌ حَتَّى يَقُولَ: كَلِفْتُ علَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أَوْ عَرَقَ الْقِرْبَةِ".
ابوعجفاء سلمی نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: خبردار غلو اور زیادتی نہ کیا کرو عورتوں کے مہر میں، کیونکہ اگر (مہر میں غلو) دنیا میں عزت و شرف کا اور الله تعالیٰ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے پہلے اس بات کے مستحق ہوتے (یعنی بیویوں اور بیٹیوں کا مہر زیادہ رکھتے) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا اور کسی لڑکی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا، خبردار، سنو! تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے مہر میں غلو اور زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں بیوی کی طرف سے عداوت ہو جاتی ہے اور وہ کہنے لگتا ہے: میں نے تیرے لئے تکلیف اٹھائی جو مشک کی رسی اٹھانے کی طرح ہے یا مجھے پسینہ آیا مشک کے پانی کی طرح۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2236) «عِلْقَ الْقِرْبَةِ» یا «عَرَقَ الْقِرْبَةِ» عربی زبان کا محاورہ ہے جس کا مقصود ہے کہ میں نے تمہارے لئے بڑی مشقت اٹھائی اور مجھے دانتوں پسینہ آ گیا۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس تقریر سے ثابت ہوا کہ مہر میں غلو اور زیادتی بالکل مستحسن نہیں، ہر کام اور ہر چیز میں عدل و میانہ روی ہی بہتر ہے، اور ان کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ اگر زیادہ مہر اچھائی ہوتی تو ہادیٔ اسلام کیوں اس میں کمی و کوتاہی کرتے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مہر میں زیادتی رنجش و عداوت اور لڑائی جھگڑے کا پیش خیمہ ہوتی ہے، لہٰذا شخصیت اور عادت و عرفِ عام کے مطابق مہر ہونا چاہیے۔ «(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)»
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2246]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2105]، [نسائي 3347]، [ابن ماجه 1886]، [ابن حبان 4620]، [موارد الظمآن 1259]