سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعت نماز پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں آپ نے عصر دو رکعت (قصر) پڑھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1548]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1089]، [مسلم 690/11]، [ترمذي 546]، [نسائي 468]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ جاتے ہوئے) مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت اور ذوالحلیفہ میں عصر دو رکعت پڑھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان بن عيينة، قال: سمعت الزهري يذكر، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، قالت:"إن الصلاة اول ما فرضت ركعتين فاقرت صلاة السفر، واتمت صلاة الحضر". فقلت: ما لها كانت تتم الصلاة في السفر؟ قال: إنها تاولت كما تاول عثمان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"إِنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ". فَقُلْتُ: مَا لَهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: إِنَّهَا تَأَوَّلَتْ كَمَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نماز پہلے پہل جب فرض کی گئی تو دو ہی رکعت تھی جو سفر میں باقی رکھی گئی اور حضر (یعنی اقامت کے دوران) میں بڑھا دی گئی، (امام زہری نے عروہ سے کہا): پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں کیوں پوری نماز پڑھتی تھیں؟ کہا: ان کی بھی وہی رائے تھی جو سیدنا عثان رضی اللہ عنہ کی رائے تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1550]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 350]، [مسلم 685]، [أبوداؤد 1198]، [نسائي 554]، [أبويعلی 2638]، [ابن حبان 2736]
وضاحت: (تشریح احادیث 1545 سے 1548) امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو کہا کہ میں نے اس لئے ایسا کیا کہ یہاں بہت سے مسلمان جمع ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ نماز کو دو رکعت ہی سمجھ لیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقع پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں، کیونکہ آپ قصر کو رخصت تصور کرتی تھیں اور اتمام ان کے نزدیک بہتر تھا۔ اس باب کی تمام احادیث سے سفر میں قصر ثابت ہوا جبکہ امام مالک و شافعی رحمہما اللہ نے اتمام کو بھی جائز کہا اور قصر ہی افضل کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بہت سے صحابہ نے قصر کو واجب کہا۔ صاحب التحفۃ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا: سننِ نبوی کے فدائیوں کے لئے ضروری ہے کہ سفر میں قصر ہی کو لازم پکڑیں گرچہ یہ غیر واجب ہے پھر بھی اتباعِ سنّت کا تقاضہ یہی ہے کہ سفر میں قصر کیا جائے اور اتمام نہیں کیا جائے، اور اس بارے میں کوئی تاویل مناسب نہیں۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں گذرا یہ الله تعالیٰ کی طرف سے صدقہ ہے جس کوقبول کرنا بہتر ہے۔ قصر نماز کب جائز ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس خروج پر سفر کا اطلاق ہو یعنی انسان تیاری کرے اور دوسری جگہ چند دن قیام کا ارادہ رکھے، اور اس سفر کی مسافت شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے 48 میل ہاشمی پر اتفاق کیا ہے، اور شیخ محمد صالح العثیمین رحمہم اللہ نے موجودہ مسافات میں 83 کلومیٹر کو مسافتِ قصر مانا ہے یعنی اتنی مسافت پر آدمی سفر کر کے جائے تو اس کے لئے قصر جائز ہے، اور ایام کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ کسی آدمی کا ارادہ دوسرے شہر میں جو مذکورہ بالا مسافت پر ہو پوری نماز پڑھے، ہاں اگر تین دن یا چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے لیکن اگر تین دن یا چار دن کا ارادہ تھا لیکن کام نہیں ہو سکا اور زیادہ دن رکنا پڑے تو جب تک قیام رہے قصر کرنا جائز ہے۔ نیز سفر پر نکلنے کے بعد آبادی سے باہر نکل جائے اور نماز کا وقت ہو جائے تو بھی قصر جائز ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۃ المکرّمہ جاتے ہوئے ذوالحلیفہ میں دو رکعت عصر کی نماز پڑھی اور یہ مقام مدینہ سے تقریباً سات کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن يحيى هو ابن ابي إسحاق، عن انس بن مالك، قال:"خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فجعل يقصر حتى قدمنا مكة، فاقام بها عشرة ايام يقصر حتى رجع، وذلك في حجته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:"خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَقْصُرُ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَقَامَ بِهَا عَشَرَةَ أَيَّامٍ يَقْصُرُ حَتَّى رَجَعَ، وَذَلِكَ فِي حَجَّتِهِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: (ہم حجۃ الوداع کے لئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے ارادے سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر کرتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دس دن تک قیام کیا اور قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس آ گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1551]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1081]، [مسلم 1352]، [أبوداؤد 1233]، [ترمذي 548]، [نسائي 1437]، [ابن ماجه 1077]، [ابن حبان 2751]
سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر حج کی ادائیگی کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1552]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3933]، [مسلم 1352]، [ابن حبان 3906، 3907]، [مسند الحميدي 867] و [مصنف عبدالرزاق 8842]
وضاحت: (تشریح احادیث 1548 سے 1550) یہ حکم صرف مہاجر کے لئے ہے یعنی جو فتح مکہ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے ان کے لئے فتح مکہ سے پہلے تین دن سے زیادہ مکہ میں ٹھہرنے کا حکم نہیں تھا، لیکن فتح مکہ کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا اور حاجی کہیں سے بھی آئے جب تک چاہے مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔
سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو حج کے بعد لوٹنے کے لیے تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت دی۔ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں بھی یہی کہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1553]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد بھی ان احادیث کو ذکر کرنے کا یہ ہے کہ اگر تین دن تک مسافر کسی دوسرے شہر میں رہے تو وہ قصر کر سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1550) علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جو لوگ مکہ میں رہتے تھے اور پھر اسلام کی وجہ سے انہوں نے فتح مکہ سے پہلے مکہ سے ہجرت کی تھی وہ اگر حج یا عمرہ کو آویں تو بعد فراغت کے تین روز سے زیادہ مکہ میں نہ رہیں، اور اس سے شافعیہ نے استدلال کیا ہے کہ تین دن کی اقامت حقیقت میں اقامت میں داخل نہیں بلکہ تین دن کا رہنے والا مسافر ہے اور کوئی مسافر اگر تین روز کی اقامت کی نیت کرے سوا روزِ خروج کے اور روزِ دخول کے تو وہ مقیم نہیں مسافر کے حکم میں ہے اور مسافر کی رخصتیں اس کے لیے مباح ہیں جیسے قصر نماز کا اور افطارِ روزے کا، انتہیٰ کلامہ، اس حدیث میں بعد الصدر سے مراد یہ ہے کہ حاجی جب اپنے ارکانِ حج مکمل کر لے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے (نفلی) نماز پڑھتے تھے اور جب فرض پڑھتے تو سواری سے اتر جاتے اور پھر قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1554]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1099]، [مسلم 540]، [أبوداؤد 1227]، [نسائي 1188]، [ابن ماجه 1018]، [أبويعلی 2120]، [ابن حبان 2120]
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن الزهري، قال: اخبرني عبد الله بن عامر بن ربيعة، ان عامر بن ربيعة، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "يسبح وهو على الراحلة، ويومئ براسه قبل اي وجه توجه، ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ذلك في الصلاة المكتوبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُسَبِّحُ وَهُوَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ".
سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر نفل نماز پڑھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کے اشارے سے نماز پڑھ رہے تھے، اس کا خیال کئے بغیر کہ سواری کا منہ کسی طرف ہے، لیکن فرض نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا. ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1555]» اس روایت میں عبدالله بن صالح سئی الحفظ جدا ہیں لیکن حدیث دوسرے طرق سے بھی مروی اور صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1197]، [مسلم 701]، [أبويعلی 7202]، [أبوداؤد 1224]، [نسائي 489]
وضاحت: (تشریح احادیث 1551 سے 1553) ایسی سواری جو اپنے اختیار میں ہو جیسے کار یا اونٹ، گھوڑا، خچر وغیرہ تو نفل نماز اس پر پڑھی جا سکتی ہے۔ فرض نماز کے لئے اترنا اور زمین پر پڑھنا چاہیے۔ ریل، جہاز وغیرہ پر فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے جو اختیار میں نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا. ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال میں نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمع کر کے پڑھتے تھے، اس طرح کہ ظہر اور عصر ایک ساتھ آپ نے پڑھی، پھر آپ اندر ہو گئے، اس کے بعد باہر آئے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1556]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 706]، [أبوداؤد 1206]، [نسائي 586]، [ابن ماجه 1070]، [ابن حبان 1458]، [موارد الظمآن 549]
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء پڑھی اور دونوں کو جمع کیا (یعنی یکے بعد دیگرے ایک ساتھ پڑھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1557]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1674]، [مسلم 1287]، [نسائي 604]، [ابن ماجه 3020]، [ابن حبان 3858]، [مسند الحميدي 387]