Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
178. باب قَصْرِ الصَّلاَةِ في السَّفَرِ:
سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1548
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"إِنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ". فَقُلْتُ: مَا لَهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: إِنَّهَا تَأَوَّلَتْ كَمَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نماز پہلے پہل جب فرض کی گئی تو دو ہی رکعت تھی جو سفر میں باقی رکھی گئی اور حضر (یعنی اقامت کے دوران) میں بڑھا دی گئی، (امام زہری نے عروہ سے کہا): پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں کیوں پوری نماز پڑھتی تھیں؟ کہا: ان کی بھی وہی رائے تھی جو سیدنا عثان رضی اللہ عنہ کی رائے تھی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1550]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 350]، [مسلم 685]، [أبوداؤد 1198]، [نسائي 554]، [أبويعلی 2638]، [ابن حبان 2736]

وضاحت: (تشریح احادیث 1545 سے 1548)
امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو کہا کہ میں نے اس لئے ایسا کیا کہ یہاں بہت سے مسلمان جمع ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ نماز کو دو رکعت ہی سمجھ لیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقع پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں، کیونکہ آپ قصر کو رخصت تصور کرتی تھیں اور اتمام ان کے نزدیک بہتر تھا۔
اس باب کی تمام احادیث سے سفر میں قصر ثابت ہوا جبکہ امام مالک و شافعی رحمہما اللہ نے اتمام کو بھی جائز کہا اور قصر ہی افضل کہا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بہت سے صحابہ نے قصر کو واجب کہا۔
صاحب التحفۃ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا: سننِ نبوی کے فدائیوں کے لئے ضروری ہے کہ سفر میں قصر ہی کو لازم پکڑیں گرچہ یہ غیر واجب ہے پھر بھی اتباعِ سنّت کا تقاضہ یہی ہے کہ سفر میں قصر کیا جائے اور اتمام نہیں کیا جائے، اور اس بارے میں کوئی تاویل مناسب نہیں۔
جیسا کہ پہلی حدیث میں گذرا یہ الله تعالیٰ کی طرف سے صدقہ ہے جس کوقبول کرنا بہتر ہے۔
قصر نماز کب جائز ہوتی ہے۔
اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔
صحیح یہ ہے کہ جس خروج پر سفر کا اطلاق ہو یعنی انسان تیاری کرے اور دوسری جگہ چند دن قیام کا ارادہ رکھے، اور اس سفر کی مسافت شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے 48 میل ہاشمی پر اتفاق کیا ہے، اور شیخ محمد صالح العثیمین رحمہم اللہ نے موجودہ مسافات میں 83 کلومیٹر کو مسافتِ قصر مانا ہے یعنی اتنی مسافت پر آدمی سفر کر کے جائے تو اس کے لئے قصر جائز ہے، اور ایام کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ کسی آدمی کا ارادہ دوسرے شہر میں جو مذکورہ بالا مسافت پر ہو پوری نماز پڑھے، ہاں اگر تین دن یا چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے لیکن اگر تین دن یا چار دن کا ارادہ تھا لیکن کام نہیں ہو سکا اور زیادہ دن رکنا پڑے تو جب تک قیام رہے قصر کرنا جائز ہے۔
نیز سفر پر نکلنے کے بعد آبادی سے باہر نکل جائے اور نماز کا وقت ہو جائے تو بھی قصر جائز ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۃ المکرّمہ جاتے ہوئے ذوالحلیفہ میں دو رکعت عصر کی نماز پڑھی اور یہ مقام مدینہ سے تقریباً سات کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح