(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا هشام الدستوائي، عن القاسم بن عوف، عن زيد بن ارقم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عليهم وهم يصلون بعد طلوع الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة الاوابين إذا رمضت الفصال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ".
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع آفتاب کے بعد باہر تشریف لائے تو لوگوں کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں، تو فرمایا: ”صلاة الأوابین کا وقت جب ہے کہ اونٹ کے بچوں کے پیر جلنے لگیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1498]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 748]، [ابن حبان 2539]، [ابن ابي شيبه 406/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1495) صلاة الاوّابین چاشت ہی کی نماز ہے جو دن چڑھے پڑھنا افضل ہے گرچہ طلوعِ شمس سے زوال تک جائز ہے، لیکن عمدہ وقت یہ ہے کہ دھوپ سے ریت گرم ہو جائے اور اونٹ کے بچوں کے پیر جلنے لگیں (علامہ رحمہ اللہ)، اوّابون اوّاب کی جمع ہے جس کے معنی مطیع و فرماں بردار کے ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دن اور رات کی نماز دو دو رکعت ہیں۔“ بعض رواۃ نے رکعتین رکعتین کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1499]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [أبوداؤد 1326]، [ابن حبان 2482]، [موارد الظمآن 636]
وضاحت: (تشریح حدیث 1496) نفلی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا چاہئے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ دن میں چار اور رات میں دو دو رکعت پڑھنی چاہئے، بعض علماء نے کہا صلاة اللیل والنہار میں ”والنہار“ کا لفظ محفوظ نہیں ہے۔ واللہ علم
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، فقال: "مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح، فليصل ركعة واحدة توتر ما قد صلى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ مَا قَدْ صَلَّى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ) دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1500]» اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 472، 990]، [مسلم 749]، [أبوداؤد 1326]، [نسائي 1693]، [أبويعلی 2623]، [ابن حبان 2426]
وضاحت: (تشریح حدیث 1497) رات کی نماز قیام اللیل یا صلاة التہجد کے نام سے معروف و مشہور ہے اور اس کو صلاة التراویح بھی کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی جواب دیا کہ وہ دو دو رکعت ہے، کتنی ہے یہ نہیں بتایا، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی رات کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد یا تراویح صرف گیارہ رکعت ہے، اور تین دن جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے تراویح پڑھائی وہ بھی گیارہ رکعت تھی، اس لئے سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت تراویح ہی ہے، اگر کوئی زیادہ پڑھنا چاہے تو ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو قاری دس دس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں 36 اور کسی زمانے میں 42 رکعت تراویح بھی حرم شریف میں پڑھی گئی ہے اور غالباً یہ اسی لئے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی اس نماز کی رکعتوں کی تحدید نہیں کی۔ واللہ اعلم، اور وتر کا بیان آگے ابواب الوتر میں آرہا ہے، کتنی پڑھنی چاہئے اور کس طرح؟
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن عوف، عن زرارة بن اوفى، عن عبد الله بن سلام، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، استشرفه الناس فقالوا: قدم رسول الله، قدم رسول الله، قال: فخرجت فيمن خرج، فلما رايت وجهه، عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، وكان اول ما سمعته يقول:"يا ايها الناس، افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا الارحام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامَ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، اسْتَشْرَفَهُ النَّاسُ فَقَالُوا: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ وَجْهَهُ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ".
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں تھے، جب تشریف لے آئے تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول تشریف لے آئے، اللہ کے رسول تشریف لے آئے۔ یہ سن کر دیگر لوگوں کے ساتھ میں بھی باہر آیا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تو یقین آ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ جھوٹ بولنے والے کا چہرہ نہیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ہو سکتے)، اس وقت جو سب سے پہلی بات میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی وہ یہ تھی: ”اے لوگو! سلام کو رائج کرو (پھیلاؤ)، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، اور رات میں جب لوگ سوتے ہوں تو تم نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1501]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2485]، [ابن ماجه 1334 بدون ذكر صلوا الأرحام]، [ابن ابي شيبة 5791]، [أحمد 451/5]، [شرح السنة للبغوي 926]، [حاكم 413/3، 160]
وضاحت: (تشریح حدیث 1498) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سلام، مہمان نوازی، صلہ رحمی اور تہجد کی نماز کا اہتمام ایسے اعمالِ صالحہ ہیں جو انسان کو سلامتی کے ساتھ جنّت میں لے جائیں گے، لہٰذا اس حدیث سے دیگر نیک کاموں کے ساتھ رات کی نمازِ تہجد کی فضیلت ثابت ہوئی، راویٔ حدیث عبداللہ بن سلام اسرائیلی تھے اور عالم تھے، کتبِ سماویہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت، ولادت اور نشانیاں جانتے تھے، اسی لئے کہا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے اور کذاب کا چہرہ نہیں ہو سکتا اور اعتراف کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سچی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن هارون بن رياب، عن الاحنف بن قيس، قال: دخلت مسجد دمشق، فإذا رجل يكثر الركوع والسجود قلت: لا اخرج حتى انظر ايدري هذا على شفع انصرفت ام على وتر فلما فرغ، قلت: يا عبد الله، اتدري على شفع انصرفت ام على وتر؟ فقال: إن اك لا ادري، فإن الله يدري. ثم قال: إني سمعت خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من عبد يسجد لله سجدة إلا رفعه الله بها درجة، وحط عنه بها خطيئة". قلت: من انت رحمك الله؟ قال: انا ابو ذر. قال: فتقاصرت إلي نفسي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ، فَإِذَا رَجُلٌ يُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ قُلْتُ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى أَنْظُرَ أَيَدْرِي هَذَا عَلَى شَفْعٍ انْصَرِفْتُ أَمْ عَلَى وِتْرٍ فَلَمَّا فَرَغَ، قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَدْرِي عَلَى شَفْعٍ انْصَرَفْتَ أَمْ عَلَى وِتْرٍ؟ فَقَالَ: إِنْ أَكُ لَا أَدْرِي، فَإِنَّ اللَّهَ يَدْرِي. ثُمَّ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً". قُلْتُ: مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ. قَالَ: فَتَقَاصَرَتْ إِلَيَّ نَفْسِي.
احنف بن قیس نے کہا: میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا، ایک شخص کو دیکھا کثرت سے رکوع و سجود کر رہا ہے، میں نے دل میں کہا کہ میں اس وقت تک باہر نہ نکلوں گا جب تک کہ دیکھ نہ لوں کہ یہ صاحب دو رکعت پر سلام پھیرتے ہیں یا ایک رکعت وتر پر، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے بندے! تم نے دو رکعت پر نماز پوری کی ہے یا وتر ایک رکعت پر؟ جواب دیا کہ اگر میں نہیں جانتا تو الله تعالیٰ تو جانتا ہے، پھر کہا کہ میں نے اپنے جگری دوست ابوالقاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو بندہ بھی اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے، اور ایک خطا معاف کر دیتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟ کہا: میں ابوذر ہوں، احنف نے کہا: اپنے تئیں میری شخصیت ان کے مقابلے میں کم ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير وهو الصنعاني، [مكتبه الشامله نمبر: 1502]» اس روایت میں محمد بن کثیر متکلم فیہ ہیں، لیکن اس کے اور بھی طرق ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت صحیح کے درجے میں پہنچ سکتی ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 3561]، [أحمد 162/5]، [بيهقي 489/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1499) احنف بن قیس تابعی اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے، لیکن جب صحابیٔ رسول سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی عبادت و علم کو دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگے: میں تو ان کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اس حدیث میں سجدہ کرنے کی فضیلت ہے، جتنے سجدے ہوں گے اتنے ہی درجات بلند ہوں گے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير وهو الصنعاني
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سلمة بن رجاء، حدثتنا شعثاء قالت: رايت ابن ابي اوفى صلى ركعتين وقال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحى ركعتين حين بشر بالفتح، او براس ابي جهل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَتْنَا شَعْثَاءُ قَالَتْ: رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضُّحَى رَكْعَتَيْنِ حِينَ بُشِّرَ بِالْفَتْحِ، أَوْ بِرَأْسِ أَبِي جَهْلٍ".
شعثاء نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فتح مکہ کی یا ابوجہل کے سر قلم کئے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھی۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1503]» اس روایت میں مسلمہ بن رجاء ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے، اور شعثاء: بنت عبدالله الاسدیہ ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [ابن ماجه 1391]، [تهذيب الكمال 206/35]
وضاحت: (تشریح حدیث 1500) سجدۂ شکر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، کسی خوش کن خبر پر صرف سجدہ کیا جائے یا دو رکعت شکرانہ ادا کی جائے۔ امام دارمی رحمہ اللہ غالباً اسی کی طرف مائل ہیں اسی لئے سجدۂ شکر کا باب قائم کیا، لیکن حدیث دو رکعت شکرانے کی ذکر کی ہے، بہرحال خوش خبری کے موقع پر سجدے میں گر جانا، یا دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کرنا دونوں عمل حسن اور جائز ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے ثابت ہیں۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1392، 1394] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا إسحاق الازرق، عن شريك، عن حصين، عن الشعبي، عن قيس بن سعد، قال: اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، فقلت: يا رسول الله، الا نسجد لك؟ قال: "لو امرت احدا ان يسجد لاحد، لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن لما جعل الله عليهن من حقهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانَ لَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْجُدُ لَكَ؟ قَالَ: "لَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْهِنَّ مِنْ حَقِّهِمْ".
سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں حیرہ (کوفے کا ایک شہر) گیا تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے سردار کو سجده کرتے ہیں، (واپس آ کر) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لئے سجدہ نہ کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں سے کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس سبب کی وجہ سے جو مردوں کا حق عورتوں پر الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1504]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2140]، [بيهقي 291/7]، [ابن حبان 4171]، [موارد الظمآن 1290]
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا حبان بن علي، عن صالح بن حبان، عن ابن بريدة، عن ابيه، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ائذن لي فلاسجد لك. قال: "لو كنت آمرا احدا ان يسجد لاحد، لامرت المراة ان تسجد لزوجها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَلِأَسْجُدَ لَكَ. قَالَ: "لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدُ لِزَوْجِهَا".
ابوبریدہ نے روایت کیا، ان کے والد نے کہا: ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو سجدہ کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی شخص کو کسی کا سجده کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1505]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اور اس کو امام حاکم نے [المستدرك 172/4] میں ذکر کیا ہے۔ لیکن دیگر شواہد کے پیشِ نظر حدیث صحیح ہے، جیسا کہ اوپر تخریجِ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1501 سے 1503) یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنا یا کسی اور کا سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کے سجدے سے روکا اور اللہ کے سامنے سجدے کی دعوت دی، اس لئے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی نبی، ولی، شمس و قمر، حجر و شجر کسی کے سامنے جھکنا، اس کا سجدہ کرنا جائز نہیں، بلکہ یہی شرکِ اکبر ہے جس کو مٹانے کے لئے پیغمبرِ اسلام مبعوث کئے گئے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلّٰهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ﴾[حم السجده: 37] »”تم شمس و قمر کو سجدہ نہ کرو بلکہ سجدہ اس ذات پاک کو کرو جس نے انہیں پیدا فرمایا۔ “ دوسری آیت میں ہے: « ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ...﴾[الحج: 18] »”کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اللہ کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں سب آسمان والے اور سب زمینوں والے، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے انسان بھی، اور بہت سے وہ لوگ بھی جن پر عذاب ثابت ہو چکا .....“، یعنی ساری ہی کائنات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے پھر انسان کیوں ان کے لئے سجدہ کرے جو خود الله تعالیٰ کا سجدہ کرتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن عبد الله بن مسعود، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "قرا النجم فسجد فيها"، فلم يبق احد إلا سجد، إلا شيخ اخذ كفا من حصا فرفعه إلى جبهته وقال: يكفيني هذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "قَرَأَ النَّجْمَ فَسَجَدَ فِيهَا"، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ، إِلَّا شَيْخٌ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصا فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا.
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کو پڑھا تو اس میں (آیت سجدہ پر) سجدہ کیا، اور وہاں موجود تمام لوگوں نے سجدہ کیا سوائے ایک شیخ (بوڑھے) کے جس نے مٹھی بھر ریت و کنکر لیا اور اپنی پیشانی پر رکھ لیا اور کہا: مجھے (سجدہ کرنے کے بجائے) یہی کافی ہے، (مسلم شریف میں ہے: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دیکھا یہ شخص کفر کی حالت میں مرا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1506]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1067]، [مسلم 576]، [أبوداؤد 1406]، [نسائي 958]، [أبويعلی 5218]، [ابن حبان 2764]
وضاحت: (تشریح حدیث 1503) یہاں سے امام دارمی رحمہ اللہ نے سجودِ تلاوت کا ذکر شروع کیا ہے۔ مذکورہ بالا روایت سے سورۂ نجم کا سجدہ ثابت ہوا جو آخری آیت: « ﴿فَاسْجُدُوا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوا﴾[النجم: 62] » پر ہے، اور جس پر مسلم و کافر اور مشرک سب ہی سجدے میں گر پڑے تھے۔ آیت کا مطلب: ”پس تم اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ “
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو سورہ ص پڑھی، اور جب آیت سجدہ پر پہنچے تو منبر سے نیچے تشریف لائے، سجدہ کیا تو ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، اور پھر دوسری بار پھر (خطبہ جمعہ) میں سورہ ص پڑھی تو ہم سجدے کے لئے تیار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں ہمیں دیکھا تو فرمایا: ”یہ ایک نبی کی توبہ کا ذکر ہے (یعنی سجدہ ضروری نہیں) لیکن میں نے تمہیں سجدے کی تیاری کرتے دیکھ لیا ہے۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح ولكنه توبع عليه فصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 1507]» عبدالله بن صالح کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1410]، [ابن حبان 2765، 2799]، [موارد الظمآن 689، 690]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح ولكنه توبع عليه فصح الإسناد