(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سلمة بن رجاء، حدثتنا شعثاء قالت: رايت ابن ابي اوفى صلى ركعتين وقال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحى ركعتين حين بشر بالفتح، او براس ابي جهل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَتْنَا شَعْثَاءُ قَالَتْ: رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضُّحَى رَكْعَتَيْنِ حِينَ بُشِّرَ بِالْفَتْحِ، أَوْ بِرَأْسِ أَبِي جَهْلٍ".
شعثاء نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فتح مکہ کی یا ابوجہل کے سر قلم کئے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1500) سجدۂ شکر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، کسی خوش کن خبر پر صرف سجدہ کیا جائے یا دو رکعت شکرانہ ادا کی جائے۔ امام دارمی رحمہ اللہ غالباً اسی کی طرف مائل ہیں اسی لئے سجدۂ شکر کا باب قائم کیا، لیکن حدیث دو رکعت شکرانے کی ذکر کی ہے، بہرحال خوش خبری کے موقع پر سجدے میں گر جانا، یا دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کرنا دونوں عمل حسن اور جائز ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے ثابت ہیں۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1392، 1394] ۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1503]» اس روایت میں مسلمہ بن رجاء ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے، اور شعثاء: بنت عبدالله الاسدیہ ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [ابن ماجه 1391]، [تهذيب الكمال 206/35]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق