(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن هارون بن رياب، عن الاحنف بن قيس، قال: دخلت مسجد دمشق، فإذا رجل يكثر الركوع والسجود قلت: لا اخرج حتى انظر ايدري هذا على شفع انصرفت ام على وتر فلما فرغ، قلت: يا عبد الله، اتدري على شفع انصرفت ام على وتر؟ فقال: إن اك لا ادري، فإن الله يدري. ثم قال: إني سمعت خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من عبد يسجد لله سجدة إلا رفعه الله بها درجة، وحط عنه بها خطيئة". قلت: من انت رحمك الله؟ قال: انا ابو ذر. قال: فتقاصرت إلي نفسي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ، فَإِذَا رَجُلٌ يُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ قُلْتُ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى أَنْظُرَ أَيَدْرِي هَذَا عَلَى شَفْعٍ انْصَرِفْتُ أَمْ عَلَى وِتْرٍ فَلَمَّا فَرَغَ، قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَدْرِي عَلَى شَفْعٍ انْصَرَفْتَ أَمْ عَلَى وِتْرٍ؟ فَقَالَ: إِنْ أَكُ لَا أَدْرِي، فَإِنَّ اللَّهَ يَدْرِي. ثُمَّ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً". قُلْتُ: مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ. قَالَ: فَتَقَاصَرَتْ إِلَيَّ نَفْسِي.
احنف بن قیس نے کہا: میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا، ایک شخص کو دیکھا کثرت سے رکوع و سجود کر رہا ہے، میں نے دل میں کہا کہ میں اس وقت تک باہر نہ نکلوں گا جب تک کہ دیکھ نہ لوں کہ یہ صاحب دو رکعت پر سلام پھیرتے ہیں یا ایک رکعت وتر پر، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے بندے! تم نے دو رکعت پر نماز پوری کی ہے یا وتر ایک رکعت پر؟ جواب دیا کہ اگر میں نہیں جانتا تو الله تعالیٰ تو جانتا ہے، پھر کہا کہ میں نے اپنے جگری دوست ابوالقاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو بندہ بھی اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے، اور ایک خطا معاف کر دیتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟ کہا: میں ابوذر ہوں، احنف نے کہا: اپنے تئیں میری شخصیت ان کے مقابلے میں کم ہو گئی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1499) احنف بن قیس تابعی اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے، لیکن جب صحابیٔ رسول سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی عبادت و علم کو دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگے: میں تو ان کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اس حدیث میں سجدہ کرنے کی فضیلت ہے، جتنے سجدے ہوں گے اتنے ہی درجات بلند ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير وهو الصنعاني، [مكتبه الشامله نمبر: 1502]» اس روایت میں محمد بن کثیر متکلم فیہ ہیں، لیکن اس کے اور بھی طرق ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت صحیح کے درجے میں پہنچ سکتی ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 3561]، [أحمد 162/5]، [بيهقي 489/2]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير وهو الصنعاني