(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، فقال: "مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح، فليصل ركعة واحدة توتر ما قد صلى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ مَا قَدْ صَلَّى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ) دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1497) رات کی نماز قیام اللیل یا صلاة التہجد کے نام سے معروف و مشہور ہے اور اس کو صلاة التراویح بھی کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی جواب دیا کہ وہ دو دو رکعت ہے، کتنی ہے یہ نہیں بتایا، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی رات کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد یا تراویح صرف گیارہ رکعت ہے، اور تین دن جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے تراویح پڑھائی وہ بھی گیارہ رکعت تھی، اس لئے سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت تراویح ہی ہے، اگر کوئی زیادہ پڑھنا چاہے تو ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو قاری دس دس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں 36 اور کسی زمانے میں 42 رکعت تراویح بھی حرم شریف میں پڑھی گئی ہے اور غالباً یہ اسی لئے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی اس نماز کی رکعتوں کی تحدید نہیں کی۔ واللہ اعلم، اور وتر کا بیان آگے ابواب الوتر میں آرہا ہے، کتنی پڑھنی چاہئے اور کس طرح؟
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1500]» اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 472، 990]، [مسلم 749]، [أبوداؤد 1326]، [نسائي 1693]، [أبويعلی 2623]، [ابن حبان 2426]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه