سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1468]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1220]، [مسلم 545]، [أبوداؤد 947]، [ترمذي 383]، [نسائي 889]، [أبويعلی 6043]، [ابن حبان 2285]
وضاحت: (تشریح حدیث 1465) خصر کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو کہتے ہیں جس کی نماز میں ممانعت ہے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ دوزخی اسی طرح راحت لیں گے، یا ابلیس اسی حالت میں آسمان سے اتارا گیا، یا یہ کہ یہود ایسا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور نماز کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1469]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 541]، [مسلم 647]، [أبوداؤد 398]، [نسائي 494]
وضاحت: (تشریح حدیث 1466) عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے اور عشاء کے بعد باتیں کرنا ممنوع ہے سوائے قرآن و حدیث کے، مراجعہ اور تلاوت کے، ذکر و اذکار اور بیوی و اہلِ خانہ و مہمان سے ضروری باتوں کے، فالتو باتوں میں وقت ضائع کرنا منع ہے، جلدی سونا اور جلدی جاگنا صحت کے لئے مفید اور شرعی لحاظ سے فائدہ مند ہے، جو لوگ ٹی وی، وی سی آر، فلم بینی اور ناچ گانے میں وقت ضائع کرتے ہیں انہیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے۔ «هدانا اللّٰه وإياهم» آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن ثابت البزار، حدثنا شعبة، عن المغيرة، عن الشعبي، عن المحرر بن ابي هريرة، عن ابيه، قال: كنت مع علي بن ابي طالب لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنادى باربع حتى صهل صوته:"الا إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يحجن بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد، فإن اجله إلى اربعة اشهر، فإذا مضت الاربعة، فإن الله بريء من المشركين ورسوله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَى بِأَرْبَعٍ حَتَّى صَهِلَ صَوْتُهُ:"أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَإِنَّ أَجَلَهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا مَضَتْ الْأَرْبَعَةُ، فَإِنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مکۃ المکرمہ کی طرف بھیجا تو میں ان کے ہمراہ تھا، انہوں نے چار چیزوں کا اعلان کیا یہاں تک کہ ان کی آواز بھرا گئی: سنو جنت میں صرف ایمان والا نفس ہی داخل ہو گا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے گا، نہ کوئی بیت اللہ کا ننگے ہو کر طواف کرے گا، اور جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد و پیمان ہو اس کی مدت چار مہینے کی ہے، یہ مدت گزرنے پر اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری الذمہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1470]» اس روایت کی سند جید اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 369، 1622]، [مسلم 1347]، [أبوداؤد 1946]، [نسائي 2957]، [ابن حبان 3820]، [أبويعلی 76، 104]، [الحميدي 48]
وضاحت: (تشریح حدیث 1467) سورۂ توبہ کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لئے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ معاہدہ کو ختم کرنے کا حق دستورِ عرب کے مطابق اسی کو ہے جس نے خود معاہدہ کیا یا کوئی اس کے خاص گھر والوں میں سے ہونا چاہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے، قریشِ مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی، طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر، صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح و امن سے رہیں گے، مگر ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے ان کی مدد کی، بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے، صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حالِ زار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، اب معاہدے کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا دیں، چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے 8ھ میں مکہ فتح ہو گیا۔ اس کے بعد 9ھ میں اس سورہ شریفہ کی دس ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرِ حج بنا کر بھیجا، پھر بعد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجا تاکہ وہ سورۂ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کر دیں، اور مذکورہ بالا چاروں امور کا دوٹوک انداز میں اعلان کریں۔ (مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ)۔
سبره (بن معبد جہنی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات سال کے بچے کو نماز پڑھنا سکھاؤ اور جب دس سال کا ہو تو نماز پڑھنے کے لئے اسے مارو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1471]» اس حدیث کی یہ سند حسن ہے، لیکن بمجموع طرق صحیح کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 494]، [ترمذي 407]، [طبراني 6546]، [مشكل الآثار للطحاوي 231/3]، [ابن خزيمه 1002]، [الحاكم 258/1 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1468) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچہ جب سات سال کا ہو تو نماز پڑھنا سکھایا جائے تاکہ نماز کی عادت پڑے، اور جب دس سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کی پٹائی کی جائے۔ واضح رہے کہ یہی حکم لڑکی کے لئے بھی ہے، ان کے اولیاء پر اس حکم کی تنفيذ واجب ہے، آج لوگ اپنے بچے بچیوں کو اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مارتے پیٹتے ہیں لیکن نماز نہ پڑھیں تو کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا، کیونکہ خود والدین بھی اکثر بے نمازی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا موسى بن علي، قال: سمعت ابي، قال: سمعت عقبة بن عامر، قال: "ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا ان نصلي فيهن، او ان نقبر فيهن موتانا: حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس، وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ: "ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین گھڑیاں (وقت) ایسی تھیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے اور ان اوقات میں میت دفن کرنے سے روکتے تھے: طلوع آفتاب کے وقت حتی کہ سورج کچھ بلندی پر آجائے، زوال کے وقت حتی کہ سورج مغرب کی طرف جھک جائے، غروب کے وقت حتی کہ سورج بالکل غروب ہو جائے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا همام، عن قتادة، عن ابي العالية، عن ابن عباس، قال: حدثني رجال مرضيون فيهم عمر بن الخطاب وارضاهم عندي عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس، ولا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے کچھ پسندیدہ اشخاص نے حدیث بیان کی جن میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جائے، اور عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ آ فتاب غروب ہو جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1473]» اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ ابوالعالیہ کا نام رفیع بن مہران الریاحی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 581]، [مسلم 287، 826]، [أبوداؤد 1276]، [ترمذي 183]، [نسائي 561]، [ابن ماجه 1250 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1469 سے 1471) دن اور رات میں کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، سورج نکلتے وقت، اور ٹھیک دوپہر کے وقت، اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک، اور نمازِ فجر کے بعد سورج نکلے تک۔ ہاں اگر کوئی فرض نماز قضا ہوگئی ہو تو اس کا پڑھ لینا جائز ہے اور فجر کی سنتیں بھی اگر فجر کی نماز سے پہلے نہ پڑھی جا سکی ہوں تو ان کو بھی بعد جماعتِ فجر پڑھا جاسکتا ہے، جو لوگ جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں پڑھتے رہتے ہیں وہ حدیث کے خلاف کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «إِذَا أُقِيْمَتِ الصَّلَاةَ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوْبَةِ.» یعنی ”جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہے۔ “(یہ حدیث آگے 1488 نمبر پر آرہی ہے)، نیز اور اوقات منہیہ عنہا میں اگر کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد بھی اسے پڑھنی چاہیے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ.» تفصیل حدیث رقم (1431) میں گذر چکی ہے، لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں جو ممانعت آئی ہے اس سے کچھ حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت الاسود بن يزيد، ومسروقا، يشهدان على عائشة، انها شهدت على رسول الله صلى الله عليه وسلم انه لم يكن عندها يوما إلا "صلى هاتين الركعتين". قال ابو محمد: تعني: بعد العصر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ، وَمَسْرُوقًا، يَشْهَدَانِ عَلَى عَائِشَةَ، أَنَّهَا شَهِدَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهَا يَوْمًا إِلَّا "صَلَّى هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: تَعْنِي: بَعْدَ الْعَصْرِ.
ابواسحاق نے کہا: میں نے اسود بن یزید اور مسروق سے سنا، انہوں نے گواہی دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے گھر میں تشریف لاتے تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ان کی مراد عصر کی نماز کے بعد کی دو رکعتیں تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1474]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 593]، [مسلم 835]، [أبوداؤد 1279]، [نسائي 575 وغيرهم]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1475]» یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 591]، [مسلم 832]، [ترمذي 184]، [أبويعلی 4489]، [ابن حبان 1570]، [الحميدي 194]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عيسى، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عمرو بن الحارث، عن بكير بن الاشج، عن كريب مولى ابن عباس، ان عبد الله بن عباس، وعبد الرحمن بن ازهر، والمسور بن مخرمة، ارسلوه إلى عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا:"اقرا عليها السلام منا جميعا، وسلها عن الركعتين بعد العصر، وقل: إنا اخبرنا انك تصلينهما، وقد بلغنا ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنهما. قال ابن عباس: وكنت اضرب مع عمر بن الخطاب الناس عليهما. قال كريب: فدخلت عليها وبلغتها ما ارسلوني به. فقالت: سل ام سلمة. فخرجت إليهم فاخبرتهم بقولها، فردوني إلى ام سلمة بمثل ما ارسلوني إلى عائشة. فقالت ام سلمة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عنهما، ثم رايته يصليهما، اما حين صلاهما، فإنه صلى العصر ثم دخل وعندي نسوة من بني حرام من الانصار، فصلاهما، فارسلت إليه الجارية، فقلت: قومي بجنبه، فقولي: ام سلمة تقول: يا رسول الله، الم اسمعك تنهى عن هاتين الركعتين، واراك تصليهما؟ فإن اشار بيده فاستاخري عنه، قالت: ففعلت الجارية، فاشار بيده فاستاخرت عنه، فلما انصرف، قال:"يا ابنة ابي امية، سالت عن الركعتين بعد العصر؟ إنه اتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم، فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر، فهما هاتان". سئل ابو محمد عن هذا الحديث، فقال: انا اقول بحديث عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم:"لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا:"اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا، وَسَلْهَا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ: إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَضْرِبُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ النَّاسَ عَلَيْهِمَا. قَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ. فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ. فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي إِلَى عَائِشَةَ. فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا، فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ، فَقُولِي: أُمُّ سَلَمَةَ تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَمْ أَسْمَعْكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا؟ فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَتْ: فَفَعَلَتْ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:"يَا ابْنَةَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ؟ إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَهُمَا هَاتَانِ". سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: أَنَا أَقُولُ بِحَدِيثِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
کریب (ابن عباس کے آزاد کردہ غلام) سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس، سیدنا عبدالرحمٰن بن الازہر، اور سیدنا سعود بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا کہ ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کی نماز کے بعد کی دو رکعت کے بارے میں پوچھنا اور کہنا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آپ بھی یہ رکعت پڑھتی ہیں حالانکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اور عصر کے بعد نماز پڑھنے پر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو مارا تھا، کریب نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو ان لوگوں کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے کہا: جاؤ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو، چنانچہ میں ان لوگوں کے پاس واپس آیا اور انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب سنا دیا، پھر انہوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہی پیغام لے کر بھیجا جو پیغام لے کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے آپ کو عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے دیکھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں رکعتیں پڑھیں تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی پھر آپ میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ دو رکعتیں پڑھیں تو میں نے لونڈی سے کہا: جاؤ آپ کے پاس کھڑی ہو جانا اور کہنا کہ ام سلمہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! میں نے تو آپ کو ان سے ممانعت کرتے سنا ہے، پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خود پڑھ رہے ہیں؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کریں تو تھوڑا ٹھہر جانا، چنانچہ لونڈی نے ایسا ہی کیا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ آپ سے پیچھے ہٹ کر ٹھہر گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بارے میں پوچھا؟ بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ اسلام لانے کے لئے آ گئے تھے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا، سو یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اس حدیث کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: میری رائے وہی ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے: «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس» - ترجمہ کے لئے دیکھئے: رقم (1471)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1476]» اس روایت کی سند صحیح، حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1233]، [مسلم 834]، [أبوداؤد 1273]، [أبويعلی 6946]، [ابن حبان 1574، 1576]
وضاحت: (تشریح احادیث 1471 سے 1474) یعنی عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے۔ اور یہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھی ہیں چاہے وہ ظہر کی دو رکعت ہوں یا عصر کے بعد کی، جیسا کہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے تو یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور عام قاعدے کے مطابق قول «لَاصَلَاةَ» اس فعل پر مقدم ہوگا، اس بارے میں امام دارمی رحمہ اللہ کی رائے راجح ہے۔ والله اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر: ان النبي صلى الله عليه وسلم"كان يصلي قبل الظهر ركعتين، وبعد الظهر ركعتين، وبعد المغرب ركعتين في بيته، وبعد العشاء ركعتين، وبعد الجمعة ركعتين في بيته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر سے پہلے دو رکعت اور بعد میں دو رکعت، مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں اور نماز عشاء کے بعد دو رکعت اور جمعہ کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں ادا فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1477]» اس روایت کی یہ سند صحیح ہے، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 937]، [مسلم 882]، [أبوداؤد 1252]، [نسائي 872، 1426]، [أبويعلی 5435]، [ابن حبان 2454]، [الحميدي 690]
وضاحت: (تشریح حدیث 1474) ایک اور روایت میں فجر سے پہلے دو رکعت پڑھنا ثابت ہے اس طرح پنج وقتہ نماز میں سننِ راتبہ کی کل تعداد دس ہوئی۔