(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن ثابت البزار، حدثنا شعبة، عن المغيرة، عن الشعبي، عن المحرر بن ابي هريرة، عن ابيه، قال: كنت مع علي بن ابي طالب لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنادى باربع حتى صهل صوته:"الا إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يحجن بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد، فإن اجله إلى اربعة اشهر، فإذا مضت الاربعة، فإن الله بريء من المشركين ورسوله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَى بِأَرْبَعٍ حَتَّى صَهِلَ صَوْتُهُ:"أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَإِنَّ أَجَلَهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا مَضَتْ الْأَرْبَعَةُ، فَإِنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مکۃ المکرمہ کی طرف بھیجا تو میں ان کے ہمراہ تھا، انہوں نے چار چیزوں کا اعلان کیا یہاں تک کہ ان کی آواز بھرا گئی: سنو جنت میں صرف ایمان والا نفس ہی داخل ہو گا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے گا، نہ کوئی بیت اللہ کا ننگے ہو کر طواف کرے گا، اور جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد و پیمان ہو اس کی مدت چار مہینے کی ہے، یہ مدت گزرنے پر اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری الذمہ ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1467) سورۂ توبہ کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لئے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ معاہدہ کو ختم کرنے کا حق دستورِ عرب کے مطابق اسی کو ہے جس نے خود معاہدہ کیا یا کوئی اس کے خاص گھر والوں میں سے ہونا چاہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے، قریشِ مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی، طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر، صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح و امن سے رہیں گے، مگر ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے ان کی مدد کی، بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے، صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حالِ زار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، اب معاہدے کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا دیں، چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے 8ھ میں مکہ فتح ہو گیا۔ اس کے بعد 9ھ میں اس سورہ شریفہ کی دس ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرِ حج بنا کر بھیجا، پھر بعد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجا تاکہ وہ سورۂ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کر دیں، اور مذکورہ بالا چاروں امور کا دوٹوک انداز میں اعلان کریں۔ (مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1470]» اس روایت کی سند جید اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 369، 1622]، [مسلم 1347]، [أبوداؤد 1946]، [نسائي 2957]، [ابن حبان 3820]، [أبويعلی 76، 104]، [الحميدي 48]