سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1416
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، وابو النعمان، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي نعامة السعدي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: بينما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي باصحابه إذ خلع نعليه فوضعهما عن يساره، فخلعوا نعالهم، فلما قضى صلاته، قال:"ما حملكم على إلقائكم نعالكم؟"قالوا: رايناك خلعت فخلعنا، قال:"إن جبريل اتاني او اتى فاخبرني ان فيهما اذى او قذرا، فإذا جاء احدكم المسجد، فليقلب نعليه، فإن راى فيهما اذى، فليمط وليصل فيهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَخَلَعُوا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ:"مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَائِكُمْ نِعَالَكُمْ؟"قَالُوا: رَأَيْنَاكَ خَلَعْتَ فَخَلَعْنَا، قَالَ:"إِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي أَوْ أَتَى فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا أَذًى أَوْ قَذَرًا، فَإِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ، فَلْيُقَلِّبْ نَعْلَيْهِ، فَإِنْ رَأَى فِيهِمَا أَذًى، فَلْيُمِطْ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اپنی جوتیاں اتار دیں اور اپنے بائیں طرف انہیں رکھ دیا۔ صحابہ کرام نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی جوتیاں اتار دیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: تمہیں اپنی جوتیاں اتارنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ عرض کیا: آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جوتی اتار دی لہٰذا ہم نے بھی جوتی نکال دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل (عليہ السلام) میرے پاس آئے یا یہ کہا: جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ آپ کی جوتیوں میں نجاست لگی ہے (اس لئے میں نے اتار دیا تھا)، اس لئے جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتوں کو پلٹ کر دیکھ لے اگر ان میں نجاست و گندگی دکھائی دے تو اس کو دور کرے پھر انہیں پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1418]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 650]، [أبويعلی 1194]، [ابن حبان 2185]، [موارد الظمآن 360]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1414 سے 1416)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
لہٰذا جوتے پہن کر نماز پڑھنا درست اور بلا کراہت جائز ہے بشرطیکہ ان میں نجاست نہ لگی ہو، اور یہ کہنا کہ نعل عربوں کا ایک خاص جوتا تھا اور ان عام جوتوں میں نماز جائز نہیں خواہ وہ پاک و صاف ہی کیوں نہ ہوں، دلائل کی رو سے ایسا کہنا صحیح نہیں، اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا یہودیوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو، وہ اپنے جوتے اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں۔
[أبوداؤد 652] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
104. باب النَّهْيِ عَنِ السَّدْلِ في الصَّلاَةِ:
104. نماز میں سدل کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1417
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن عامر، عن سعيد بن ابي عروبة، عن عسل، عن عطاء، عن ابي هريرة، انه "كره السدل"، ورفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عِسْلٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ "كَرِهَ السَّدْلَ"، وَرَفَعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ناپسند کیا سدل کو اور ناپسندیدگی کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا۔

تخریج الحدیث: «في اسناده علتان: سعيد بن عامر متأخر السماع من سعيد بن أبي عروبة وضعف عسل بن سفيان، [مكتبه الشامله نمبر: 1419]»
اس روایت کی سند میں عسل بن سفیان ضعیف ہیں، لیکن اس حدیث کے شواہد کے پیشِ نظر حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 643]، [ترمذي 376]، [ابن حبان 2289]، [موارد الظمآن 478، 479]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1416)
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا: سدل یہ ہے کہ غرور و تکبر سے کپڑے کو چھوڑ دے، وہ زمین تک لٹکتا رہے۔
نہایہ میں ہے: سدل یہ ہے کہ کپڑا اوپر سے اوڑھ کر لٹکا لے جس طرح یہودی کرتے ہیں۔
بعض علماء نے کہا: سر پر چادر اوڑھ کر اس کو لٹکنے دے بکل نہ مارے۔
بعض نے کہا: جبہ میں سدل یہ ہے کہ اسے اوڑھ لے اور ہاتھ آستینوں کے اندر نہ کرے (علامہ وحید الزماں)۔
بعض احادیث میں سدل کی صریح ممانعت ہے جیسا کہ تخریج سے معلوم ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده علتان: سعيد بن عامر متأخر السماع من سعيد بن أبي عروبة وضعف عسل بن سفيان
105. باب في عَقْصِ الشَّعْرِ:
105. جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1418
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن مخول، عن ابي سعيد، عن ابي رافع، قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ساجد، وقد عقصت شعري، او قال: عقدت"فاطلقه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مِخْوَلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا سَاجِدٌ، وَقَدْ عَقَصْتُ شَعْرِي، أَوْ قَالَ: عَقَدْتُ"فَأَطْلَقَهُ".
ابورافع (مولی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جوڑا باندھے ہوئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1420]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن اس لفظ سے صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، دوسری کتب میں دوسرے سیاق سے ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 646]، [ترمذي 384]، [ابن حبان 2279]، [موارد الظمآن 474]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1417)
«عقص عقصا» بالوں کے گوندھنے، چوٹی بنانے یا جوڑا بنانے کو کہتے ہیں، اس حدیث کے پیشِ نظر علماء نے مردوں کے لئے جوڑا بنا کر نماز پڑھنے کو ناپسند کیا اور مکروہ جانا ہے کیونکہ اس میں عورتوں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1419
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني بكر هو ابن مضر، عن عمرو يعني ابن الحارث، عن بكير، ان كريبا مولى ابن عباس حدثه، ان ابن عباس رضي الله عنه راى عبد الله بن الحارث يصلي وراسه معقوص من ورائه فقام وراءه، فجعل يحله، واقر له الآخر، ثم انصرف إلى ابن عباس، فقال: ما لك وراسي؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"إنما مثل هذا كمثل الذي يصلي وهو مكتوف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي بَكْرٌ هُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرٍ، أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ فَقَامَ وَرَاءَهُ، فَجَعَلَ يَحُلُّهُ، وَأَقَرَّ لَهُ الْآخَرُ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا كَمَثَلِ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ".
کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو پیچھے کی طرف بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پیچھے کھڑے ہوئے اور اس جوڑے کو کھولنے لگے، ایک اور شخص نے بھی ان کی تائید کی پھر وہ (عبدالله بن حارث) جب نماز سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور عرض کیا: کیا بات ہے آپ نے ایسا میرے سر کے ساتھ کیوں کیا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص جوڑا باندھ کر نماز پڑھے) اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہوں اور وہ نماز پڑھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1421]»
اس روایت کی سند عبدالله بن صالح کاتب اللیث کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 492]، [أبوداؤد 647]، [نسائي 1115]، [ابن حبان 2280]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح
106. باب التَّثَاؤُبِ في الصَّلاَةِ:
106. نماز میں جمائی لینے کا بیان
حدیث نمبر: 1420
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، حدثنا عبد العزيز هو ابن محمد، عن سهيل، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا تثاءب احدكم، فليشد يده، فإن الشيطان يدخل". قال ابو محمد: يعني على فيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَشُدَّ يَدَهُ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي عَلَى فِيهِ.
عبدالرحمٰن بن ابی سعید نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے، کیونکہ شیطان منہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یعنی منہ پر ہاتھ رکھ لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد، [مكتبه الشامله نمبر: 1422]»
اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2995]، [أبوداؤد 5026، 5027]، [أبويعلی 1162]، [ابن حبان 2360]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1418 سے 1420)
اس روایت میں «فَلْيَشُدَّ» ہے بعض نسخے میں «فَلْيَسُدَّ» اور مسلم کی روایات میں «فَلْيُمْسِكْ» اور «فَلْيَكْظِمْ» کا لفظ ہے جس کے معنی روکنے، پی جانے کے ہیں، یعنی جہاں تک ہو سکے روکے کیونکہ یہ سستی و کاہلی او ثقل کی نشانی ہے، زیادہ مجبور ہو تو منہ پر ہاتھ رکھ لے۔
بعض روایات میں تصریح ہے: «إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ.» یعنی جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے، اس لئے کہ اس فعل سے شیطان کو اندر گھسنے اور نماز میں وسوسہ ڈالنے اور بھلانے کا موقع مل جاتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد
107. باب كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ لِلنَّاعِسِ:
107. اونگھتے ہوۓ نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر: 1421
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا وجد احدكم النوم وهو يصلي فلينم، حتى يذهب نومه، فإنه عسى يريد ان يستغفر، فيسب نفسه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ النَّوْمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَنَمْ، حَتَّى يَذْهَبَ نَوْمُهُ، فَإِنَّهُ عَسَى يُرِيدُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ، فَيَسُبَّ نَفْسَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتے ہوئے غنودگی محسوس کرے تو سو جائے یہاں تک کہ نیند دور ہو جائے، کیونکہ ہو سکتا ہے وہ مغفرت طلب کرنے کے بجائے اپنے لئے بددعا کر بیٹھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1423]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 212]، [مسلم 786]، [أبوداؤد 1310]، [ترمذي 355]، [ابن ماجه 1370]، [أبويعلی 2800]، [ابن حبان 2583، 2584]، [الحميدي 185]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1420)
نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جانے کا یہ حکم نفلی نماز کے لئے ہے، فرض نماز اور جماعت کے لئے جاگنا لازم ہے اور اچھی طرح وضو کر کے نیند، اونگھ اور غنودگی ختم کر دینی چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
108. باب صَلاَةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاَةِ الْقَائِمِ:
108. کھڑے یا بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب
حدیث نمبر: 1422
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا جعفر هو ابن الحارث، عن منصور، عن هلال، عن ابي يحيى، عن عبد الله بن عمرو، قال: بلغني ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة الرجل جالسا نصف الصلاة". قال: فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي جالسا، فقلت: يا رسول الله، إنه بلغني انك قلت:"صلاة الرجل جالسا نصف الصلاة"، وانت تصلي جالسا؟ قال:"اجل، ولكني لست كاحد منكم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ الرَّجُلِ جَالِسًا نِصْفُ الصَّلَاةِ". قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي جَالِسًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ قُلْتَ:"صَلَاةُ الرَّجُلِ جَالِسًا نِصْفُ الصَّلَاةِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي جَالِسًا؟ قَالَ:"أَجَلْ، وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (تو دیکھا) کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے تو خبر ملی ہے کہ آپ نے فرمایا: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے اور آپ خود بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (میں نے ایسا کہا ہے)، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں (یعنی میرا معاملہ تم سے جدا ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل جعفر بن الحارث، [مكتبه الشامله نمبر: 1424]»
اس روایت کی سند میں جعفر بن الحارث کی وجہ سے کلام ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 735]، [أبوداؤد 950]، [نسائي 1658]، [بيهقي 62/7]، [ابن خزيمه 1237]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1421)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنا کسی عذرِ شرعی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا آدھا ثواب ہے۔
برِصغیر ہند و پاک میں لوگوں نے بیٹھ کر نفل پڑھنا سنّت بنا لیا ہے حالانکہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ تم میری طرح نہیں ہو، تم تو اگر بیٹھ کر نماز پڑھو گے تو آدھی نماز کا ثواب ملے گا۔
ابوداؤد میں اس سلسلے میں اور بھی متعدد روایات ہیں جن کی رو سے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھنا افضل ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ لوگ افضل کو چھوڑ کر غیر افضل کو ترجیح دیتے ہیں۔
«هدانا اللّٰه و إياهم.» آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل جعفر بن الحارث
109. باب في صَلاَةِ التَّطَوُّعِ قَاعِداً:
109. نفلی نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1423
Save to word اعراب
(حديث موقوف) (حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، حدثني السائب بن يزيد، عن المطلب بن ابي وداعة، ان حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: "لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في سبحته وهو جالس، حتى كان قبل ان يتوفى بعام واحد او عامين، فرايته يصلي في سبحته وهو جالس، فيرتل السورة حتى تكون اطول من اطول منها". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، أَنَّ حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، حَتَّى كَانَ قَبْلَ أَنْ يُتَوَفَّى بِعَامٍ وَاحِدٍ أَوْ عَامَيْنِ، فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَيُرَتِّلُ السُّورَةَ حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا".
ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نفلی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف ایک یا دو سال پہلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ترتیل سے سورت کی قرأت کرتے اور وہ طویل سے طویل تر ہو جاتی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1425]»
اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں، لیکن یہ دوسری صحیح سند سے بھی موجود ہے۔ دیکھئے: [مسلم 733]، [ترمذي 372]، [نسائي 1657]، [أبويعلی 7055]، [ابن حبان 2530]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 1424
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، انبانا مالك، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، عن المطلب بن ابي وداعة، عن حفصة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَنْبأَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
عثمان بن عمر کے طریق سے بھی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1426]»
اس روایت کا حوالہ پچھلی حدیث میں گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ: صلاة الجماعة: ۲۲]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1422 سے 1424)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمر میں بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنا کمزوری کی وجہ سے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاصیت تھی، جیسا کہ پچھلے باب میں گذر چکا ہے، نیز یہ فعل ہے اور پچھلے باب میں حدیث قولی کا ذکر گزر چکا ہے اور حدیث کے قواعد کی رو سے قول فعل پر مقدم ہوتا ہے، ان تمام دلائل کی روشنی میں بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنا کسی طرح سنّت نہیں ہو سکتا اور افضل کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھنا ہے۔
واللہ اعلم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
110. باب النَّهْيِ عَنْ مَسْحِ الْحَصَا:
110. نماز میں کنکری ہٹانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1425
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، حدثني معيقيب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قيل له في المسح في المسجد قال:"إن كنت لا بد فاعلا، فواحدة". قال هشام: اراه قال: يعني: مسح الحصا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي مُعَيْقِيبٌ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ لَهُ فِي الْمَسْحِ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ:"إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا، فَوَاحِدَةً". قَالَ هِشَامٌ: أُرَاهُ قَالَ: يَعْنِي: مَسْحِ الْحَصَا.
سیدنا معیقیب ابن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں کنکری ہٹانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بہت زیادہ ہی ضروری ہو تو ایک بار۔ ہشام نے کہا: میرا خیال ہے مطلب یہ تھا کہ ایک بار نکریاں ہٹا لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1427]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1207]، [مسلم 546]، [أبوداؤد 946]، [نسائي 1191]، [ترمذي 380]، [ابن ماجه 1026]، [ابن حبان 2275]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    17    18    19    20    21    22    23    24    25    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.