سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
1. باب في فَضْلِ الصَّلَوَاتِ:
1. نماز کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1216
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مثل الصلوات المكتوبات، كمثل نهر جار عذب على باب احدكم، يغتسل منه كل يوم خمس مرات".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ، كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ عَذْبٍ عَلَى بَاب أَحَدِكُمْ، يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرض نمازوں کی مثال تمہارے دروازے پر بہتی میٹھی ندی کی طرح ہے جس سے کوئی ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1220]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 688]، [مسند أبى عوانة 21/2]، [صحيح ابن حبان 1725] و [مسند أبى يعلي 1941]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1217
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد بن عبد الله، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ارايتم لو ان نهرا بباب: احدكم يغتسل كل يوم خمس مرات، ماذا تقولون ذلك مبقيا من درنه؟"قالوا: لا يبقي من درنه. قال:"كذلك مثل الصلوات الخمس، يمحو الله بهن الخطايا". قال عبد الله: حديث ابي هريرة عندي اصح.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَاب: أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، مَاذَا تَقُولُونَ ذَلِكَ مُبْقِيًا مِنْ دَرَنِهِ؟"قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ. قَالَ:"كَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا". قَالَ عَبْد اللَّهِ: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ عِنْدِي أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: کسی آدمی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ بار نہاتا ہے، بتاؤ کیا اس سے اس پر کچھ میل باقی رہے گا؟ عرض کیا: کچھ میل نہیں بچے گا۔ فرمایا: یہی مثال پنج وقتہ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان (نمازوں) کے ذریعہ گناہوں کو صاف کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1221]»
اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 528]، [مسلم 697] وغيرهما۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1216 سے 1217)
مطلب یہ ہے کہ پانی جس طرح میل کچیل صاف کر دیتا ہے نماز بھی گناه دور کر کے انسان کو پاک و صاف کر دیتی ہے، اور یہ نماز کی بڑی فضیلت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح
2. باب في مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ:
2. نماز کے اوقات کا بیان
حدیث نمبر: 1218
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن بن علي رضوان الله عليهما قال: سالنا جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في زمن الحجاج وكان يؤخر الصلاة عن وقت الصلاة، فقال جابر: كان النبي صلى الله عليه وسلم "يصلي الظهر حين تزول الشمس، والعصر وهي حية او نقية، والمغرب حين تجب الشمس، والعشاء ربما عجل وربما اخر: إذا اجتمع الناس عجل، وإذا تاخروا، اخر، والصبح ربما كانوا او كان يصليها بغلس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَهِيَ حَيَّةٌ أَوْ نَقِيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ حِينَ تَجِبُ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ رُبَّمَا عَجَّلَ وَرُبَّمَا أَخَّرَ: إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَجَّلَ، وَإِذَا تَأَخَّرُوا، أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ رُبَّمَا كَانُوا أَوْ كَانَ يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ".
محمد بن حسن بن علی نے کہا: ہم نے سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے حجاج کے زمانے میں پوچھا جو کہ نماز تاخیر سے پڑھتے تھے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر کی نماز (اس وقت پڑھتے) جب سورج صاف ہو جاتا، اور نماز مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور عشاء کی نماز کبھی جلدی اور کبھی دیر سے پڑھتے تھے، جب لوگ جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور جب لوگ تاخیر کرتے تو آپ تاخیر سے نماز پڑھتے، اور صبح کی نماز وہ سب (یا یہ کہا) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1222]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 560]، [مسلم 646]، [مسند أبى يعلی 2029]، و [ابن حبان 1728]۔ واضح رہے کہ ان تمام مصادر میں ( «رُبَّمَا» ) کا لفظ موجو نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1219
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، ان عمر بن عبد العزيز اخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير، فاخبره ان المغيرة بن شعبة اخر الصلاة يوما، فدخل عليه ابو مسعود الانصاري، فقال: ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت ان جبريل نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:"بهذا امرت". قال: اعلم ما تحدث يا عروة، او ان جبريل اقام وقت الصلاة لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: كذلك كان بشير بن ابي مسعود يحدث، عن ابيه. قال عروة: ولقد حدثتني عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل ان تظهر"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:"بِهَذَا أُمِرْتَ". قَالَ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ، أَوَ أَنَّ جِبْرِيلَ أَقَامَ وَقْتَ الصَّلَاةِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ"..
ابن شہاب سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی تو عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن نماز میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو آپ نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر (جبریل علیہ السلام) نے نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے، (اس پر) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عروہ تمہیں معلوم ہے کیا بیان کر رہے ہو، کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات عمل کر کے بتائے تھے؟ عروہ نے کہا: بشیر بن ابی مسعود بھی اپنے والد کے طریق سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔ عروہ نے کہا: مجھ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب دھوپ ابھی ان کے حجرے میں موجود ہوتی تھی، اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1223]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 521]، [مسلم 610] و [أصحاب السنن، أحمد 274/5]، [ابن حبان 1449]، [الحميدي 456]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1218 سے 1219)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اوقاتِ نماز کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ جبریل علیہ السلام نے الله تعالیٰ کی طرف سے اس کی قولاً و عملاً تعلیم دی، نیز یہ کہ ہر نماز کی ادائیگی اوّل وقت میں الله کو بہت محبوب ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کونسا عمل ہے؟ فرمایا: اوّل وقت میں نماز پڑھنا «(أو كما قال عليه الصلاة والسلام)» دیکھئے: رقم (1259) و [بخاري 527] ۔
اس حدیث میں پانچوں نمازوں کے وقت کی تحدید کے علاوہ اور بھی کتنے ہی فوائد ہیں، ایک یہ کہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو دور کرنے کے لئے علماء کا امراء کے دربار میں جانا صحیح ہے، نیز یہ کہ اوّل وقت میں نماز پڑھنے کی اس حدیث میں فضیلت ہے اور صحیح بات مان لینا بھی اس سے ثابت ہوتا ہے۔
والله اعلم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
3. باب في بَدْءِ الأَذَانِ:
3. اذان کی شروعات کا بیان
حدیث نمبر: 1220
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا سلمة، حدثني محمد بن إسحاق، قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدمها قال ابو محمد: يعني المدينة إنما يجتمع إليه بالصلاة لحين مواقيتها بغير دعوة، فهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يجعل بوقا كبوق اليهود الذين يدعون به لصلاتهم، ثم كرهه، ثم امر بالناقوس فنحت ليضرب به للمسلمين إلى الصلاة، فبينما هم على ذلك إذ راى عبد الله بن زيد بن عبد ربه، اخو الحارث بن الخزرج، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنه طاف بي الليلة طائف: مر بي رجل عليه ثوبان اخضران يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله، اتبيع هذا الناقوس؟ فقال: وما تصنع به؟ قلت: ندعو به إلى الصلاة. قال: افلا ادلك على خير من ذلك؟ قلت: وما هو؟ قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. ثم استاخر غير كثير، ثم قال مثل ما قال، وجعلها وترا إلا انه قال: قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. فلما خبر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فالقها عليه، فإنه اندى صوتا منك. فلما اذن بلال، سمعها عمر بن الخطاب، فقال: وهو في بيته، فخرج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يجر إزاره وهو يقول: يا نبي الله، والذي بعثك بالحق لقد رايت مثل ما راى. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فلله الحمد، فذاك اثبت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحاقَ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَهَا قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي الْمَدِينَةَ إِنَّمَا يُجْتَمَعُ إِلَيْهِ بِالصَّلَاةِ لِحِينِ مَوَاقِيتِهَا بِغَيْرِ دَعْوَةٍ، فَهَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْعَلَ بُوقًا كَبُوقِ الْيَهُودِ الَّذِينَ يَدْعُونَ بِهِ لِصَلَاتِهِمْ، ثُمَّ كَرِهَهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالنَّاقُوسِ فَنُحِتَ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلْمُسْلِمِينَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، أَخُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ طَافَ بِيَ اللَّيْلَةَ طَائِفٌ: مَرَّ بِي رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ هَذَا النَّاقُوسَ؟ فَقَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ اسْتَأْخَرَ غَيْرَ كَثِيرٍ، ثُمَّ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ، وَجَعَلَهَا وِتْرًا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَلَمَّا خُبِّرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِهَا عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ. فَلَمَّا أَذَّنَ بِلَالٌ، سَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَهُوَ يَقُولُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، فَذَاكَ أَثْبَتُ".
محمد بن اسحاق نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں (امام داری رحمہ اللہ نے کہا یعنی) مدینہ تشریف لائے تھے تو نماز کے اوقات میں (لوگ) بلا اذان کے جمع ہو جاتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا سا بگل (نرسنگا) بنانے کا ارادہ فرمایا جس سے وہ (یہود) لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا، پھر آپ نے ناقوس کا حکم دیا جو تراشا گیا تاکہ اس کو مسلمانوں کی نمازوں کے لئے بجایا جائے، اسی دوران عبداللہ بن زید بن عبدربہ (جو کہ حارث ابن لخزرج کے بھائی تھے) نے خواب دیکھا، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آج رات سوتے ہوئے میرے پاس سے ایک شخص گزرا جو دو سبز کپڑے پہنے ہوئے اپنے ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے بندے اس ناقوس کو فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اس کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا اس کے ذریعے نماز کے لئے بلائیں گے، تو اس نے کہا میں تم کو اس سے اچھی بات بتاؤں؟ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یوں کہو۔ «الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» پھر وہ شخص تھوڑی دیر رکا اور پھر (یہی) کلمات ایک ایک بار دہرائے سوائے: «قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» کے (یعنی اقامت کہی)۔ جب عبداللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن شاء اللہ یہ سچا خواب ہے سو تم بلال رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں سکھا دو، وہ تم سے بلند آواز رکھتے ہیں، پھر جب بلال نے اذان دی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے سنی تو وہ اپنے ازار کو گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے بھی ایسا ہی خواب میں دیکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ یہ اور زیادہ سچی بات ہے۔

تخریج الحدیث: «اسناد ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1224]»
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن صحیح سند موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 499]، [ابن ماجه 706]، [ترمذي 189]، [صحيح ابن حبان 1679]، [موارد الظمآن 287] و [دلائل النبوة 17/7-18]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: اسناد ضعيف ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 1221
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال محمد بن حميد: حدثنيه سلمة، قال: حدثنيه محمد بن إسحاق، قال: حدثني هذا الحديث محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، عن ابيه، بهذا الحديث.(حديث مرفوع) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ: حَدَّثَنِيهِ سَلَمَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ مًحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، عَنْ أَبِيهِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
محمد بن عبدربہ نے اپنے باپ سے اسی طرح (مذکورہ بالا حدیث) بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1224]»
اس روایت کی تخریج پیچھے گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 1222
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، حدثني ابي عبد الله بن زيد، قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس، فذكر نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے کہا: میرے والد عبدالله بن زید نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کا حکم فرمایا۔۔۔ اور پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1225]»
اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1220 سے 1222)
ان تمام روایات سے اذان کی ابتداء، اس کی مشروعیت اور کیفیت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ ا قامت کے الفاظ ( «قد قامت الصلاة» اور «اللّٰه أكبر») کے علاوہ اکہرے یعنی ایک ایک بار ہی کہے جائیں گے۔
اور خواب کے ذریعہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حلت یا مشروعیت ثابت ہوگی، وفات کے بعد نہیں۔
نیز یہ کہ مومن کا خواب سچا ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب في وَقْتِ أَذَانِ الْفَجْرِ:
4. فجر کی اذان کا وقت
حدیث نمبر: 1223
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، يرفعه قال:"إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَرْفَعُهُ قَالَ:"إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ".
سالم نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر) سے روایت کیا وہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات میں اذان دیتے ہیں، اس لئے تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ام مکتوم کے بیٹے اذان دیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1226]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 617]، [مسلم 1092]، [أبويعلی 5432]، [ابن حبان 3469]، [الحميدي 623] وغيرهم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1224
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، حدثنا عبدة، انبانا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، وعن القاسم، عن عائشة قالت: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مؤذنان: بلال وابن ام مكتوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا اذان ابن ام مكتوم". فقال القاسم: وما كان بينهما إلا ان ينزل هذا، ويرقى هذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، وَعَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنَانِ: بِلَالٌ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ". فَقَالَ الْقَاسِمُ: وَمَا كَانَ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا، وَيَرْقَى هَذَا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، بلال اور ام مکتوم کے بیٹے، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال تو رات رہتے ہوئے اذان دیتے ہیں، سو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو۔ قاسم نے کہا: ان دونوں کی اذانوں میں اتنا وقفہ تھا کہ ایک اترتے اور دوسرے (اذان کے لئے) چڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «حديث ابن عمر متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1227]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 622]، [مسلم 1092/38] و [صحيح ابن حبان 3473]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1223 سے 1224)
عہدِ رسالت میں دستور تھا کہ سحری یا تہجد کی اذان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے اور فجر کی اذان سیدنا عبداللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے۔
عہدِ خلافت میں بھی یہی دستور رہا اور آج تک چلا آ رہا ہے، لہٰذا یہ سحری اور تہجد کی اذان کا واضح ثبوت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث ابن عمر متفق عليه
5. باب التَّثْوِيبِ في أَذَانِ الْفَجْرِ:
5. فجر کی اذان میں تثویب کا بیان
حدیث نمبر: 1225
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر بن فارس، حدثنا يونس، عن الزهري، عن حفص بن عمر بن سعد المؤذن، ان"سعدا كان يؤذن في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم", قال حفص: حدثني اهلي، ان بلالا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤذنه لصلاة الفجر، فقالوا: إنه نائم، "فنادى بلال باعلى صوته: الصلاة خير من النوم، فاقرت في اذان صلاة الفجر". قال ابو محمد: يقال: سعد القرظ.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ الْمُؤَذِّنِ، أَنَّ"سَعْدًا كَانَ يُؤَذِّنُ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ", قَالَ حَفْصٌ: حَدَّثَنِي أَهْلِي، أَنَّ بِلَالًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْذِنُهُ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، فَقَالُوا: إِنَّهُ نَائِمٌ، "فَنَادَى بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ، فَأُقِرَّتْ فِي أَذَانِ صَلَاةِ الْفَجْرِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يُقَالُ: سَعْدٌ الْقَرَظُ.
حفص بن عمر بن سعد موذن سے مروی ہے کہ سعد مسجد نبوی میں اذان دیا کرتے تھے۔ حفص نے کہا: میرے گھر والوں نے مجھ سے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کے لئے بلانے آئے، لوگوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں، بلال نے بلند آواز سے کہا: «الصلاة خير من النوم» نماز نیند سے بہتر ہے، لہٰذا یہ کلمہ اذان فجر میں شامل کر دیا گیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: سعد کو سعد القرظ کہا جاتا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 1228]»
یہ حدیث اس سند سے حفص بن عمر کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اس سند سے [المعجم الكبير 5449] اور [الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 2255] میں موجود ہے، نیز الصلاة خیر من النوم کا ثبوت صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [حديث أبي محذورة فى صحيح ابن حبان 1682]، [موارد الظمآن 289] و [مصنف عبدالرزاق 1821]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1224)
اس روایت سے فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا ثابت ہوا۔
نیز اذانِ فجر کے بعد جگانے کا ثبوت بھی ملا۔
اور یہی تثویب کا مطلب ہے یعنی اذان کے بعد کسی کو جگانا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.