سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
4. باب في وَقْتِ أَذَانِ الْفَجْرِ:
فجر کی اذان کا وقت
حدیث نمبر: 1224
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، وَعَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنَانِ: بِلَالٌ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ". فَقَالَ الْقَاسِمُ: وَمَا كَانَ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا، وَيَرْقَى هَذَا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، بلال اور ام مکتوم کے بیٹے، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال تو رات رہتے ہوئے اذان دیتے ہیں، سو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو۔“ قاسم نے کہا: ان دونوں کی اذانوں میں اتنا وقفہ تھا کہ ایک اترتے اور دوسرے (اذان کے لئے) چڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث ابن عمر متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1227]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 622]، [مسلم 1092/38] و [صحيح ابن حبان 3473]
وضاحت: (تشریح احادیث 1223 سے 1224)
عہدِ رسالت میں دستور تھا کہ سحری یا تہجد کی اذان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے اور فجر کی اذان سیدنا عبداللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے۔
عہدِ خلافت میں بھی یہی دستور رہا اور آج تک چلا آ رہا ہے، لہٰذا یہ سحری اور تہجد کی اذان کا واضح ثبوت ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث ابن عمر متفق عليه