سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
3. باب في بَدْءِ الأَذَانِ:
اذان کی شروعات کا بیان
حدیث نمبر: 1220
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحاقَ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَهَا قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي الْمَدِينَةَ إِنَّمَا يُجْتَمَعُ إِلَيْهِ بِالصَّلَاةِ لِحِينِ مَوَاقِيتِهَا بِغَيْرِ دَعْوَةٍ، فَهَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْعَلَ بُوقًا كَبُوقِ الْيَهُودِ الَّذِينَ يَدْعُونَ بِهِ لِصَلَاتِهِمْ، ثُمَّ كَرِهَهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالنَّاقُوسِ فَنُحِتَ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلْمُسْلِمِينَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، أَخُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ طَافَ بِيَ اللَّيْلَةَ طَائِفٌ: مَرَّ بِي رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ هَذَا النَّاقُوسَ؟ فَقَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ اسْتَأْخَرَ غَيْرَ كَثِيرٍ، ثُمَّ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ، وَجَعَلَهَا وِتْرًا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَلَمَّا خُبِّرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِهَا عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ. فَلَمَّا أَذَّنَ بِلَالٌ، سَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَهُوَ يَقُولُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، فَذَاكَ أَثْبَتُ".
محمد بن اسحاق نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں (امام داری رحمہ اللہ نے کہا یعنی) مدینہ تشریف لائے تھے تو نماز کے اوقات میں (لوگ) بلا اذان کے جمع ہو جاتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا سا بگل (نرسنگا) بنانے کا ارادہ فرمایا جس سے وہ (یہود) لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا، پھر آپ نے ناقوس کا حکم دیا جو تراشا گیا تاکہ اس کو مسلمانوں کی نمازوں کے لئے بجایا جائے، اسی دوران عبداللہ بن زید بن عبدربہ (جو کہ حارث ابن لخزرج کے بھائی تھے) نے خواب دیکھا، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آج رات سوتے ہوئے میرے پاس سے ایک شخص گزرا جو دو سبز کپڑے پہنے ہوئے اپنے ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے بندے اس ناقوس کو فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اس کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا اس کے ذریعے نماز کے لئے بلائیں گے، تو اس نے کہا میں تم کو اس سے اچھی بات بتاؤں؟ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یوں کہو۔ «الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» پھر وہ شخص تھوڑی دیر رکا اور پھر (یہی) کلمات ایک ایک بار دہرائے سوائے: «قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» کے (یعنی اقامت کہی)۔ جب عبداللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”إن شاء اللہ یہ سچا خواب ہے سو تم بلال رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں سکھا دو، وہ تم سے بلند آواز رکھتے ہیں“، پھر جب بلال نے اذان دی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے سنی تو وہ اپنے ازار کو گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے بھی ایسا ہی خواب میں دیکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الحمدللہ یہ اور زیادہ سچی بات ہے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «اسناد ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1224]»
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن صحیح سند موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 499]، [ابن ماجه 706]، [ترمذي 189]، [صحيح ابن حبان 1679]، [موارد الظمآن 287] و [دلائل النبوة 17/7-18]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: اسناد ضعيف ولكن الحديث صحيح