سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“ ابن ماجہ کی روایت میں ہے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباغ وضو کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 727]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 232/1]، [أبوداؤد 808]، [ترمذي 1701]، [نسائي 143]، [ابن ماجه 426]، [بيهقي فى السنن 23/10، وفي معرفة السنن 19275]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا زائدة، حدثنا خالد بن علقمة الهمداني، حدثني عبد خير، قال: دخل علي رضي الله عنه الرحبة بعدما صلى الفجر، فجلس في الرحبة، ثم قال لغلام له: ائتني بطهور، قال: فاتاه الغلام بإناء فيه ماء وطست، قال عبد خير: ونحن جلوس ننظر إليه"فادخل يده اليمنى فملا فمه، فمضمض واستنشق، ونثر بيده اليسرى، فعل هذا ثلاث مرات"، ثم قال: "من سره ان ينظر إلى طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهذا طهوره"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ خَيْرٍ، قَالَ: دَخَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الرَّحَبَةَ بَعْدَمَا صَلَّى الْفَجْرَ، فَجَلَسَ فِي الرَّحَبَةِ، ثُمَّ قَالَ لِغُلَامٍ لَهُ: ائْتِنِي بِطَهُورٍ، قَالَ: فَأَتَاهُ الْغُلَامُ بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ وَطَسْتٍ، قَالَ عَبْدُ خَيْرٍ: وَنَحْنُ جُلُوسٌ نَنْظُرُ إِلَيْهِ"فَأَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فَمَلَأَ فَمَهُ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَنَثَرَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى، فَعَلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"، ثُمَّ قَالَ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى طُهُورِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَذَا طُهُورُهُ"..
عبد خیر نے بیان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھنے کے بعد رحبہ میں تشریف لائے (جو کوفے کا ایک مقام ہے) اور بیٹھ گئے، پھر اپنے غلام سے فرمایا: وضو کا پانی لاؤ، راوی نے کہا: غلام پانی کا برتن اور طشت لے کر آیا۔ عبد خیر نے کہا: ہم بیٹھے ہوئے ان کی طرف دیکھ رہے تھے، انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ (پانی میں ڈالا) اور منہ میں پانی بھرا، کلی کی، اور ناک میں پانی چڑھایا اور بائیں ہاتھ سے اسے جھاڑا، اس طرح تین بار کیا، پھر فرمایا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہے تو یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ہے۔ (یعنی کلی، استنشاق اور استنثار)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 728]» دیکھئے: [مسند أبى يعلي 286]، [صحيح ابن حبان 1056]، [موارد الظمآن 150]، کلی اور ناک میں پانی ڈالنا اور صاف کرنے کا ذکر بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 164] و [مسلم 235]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 729]» تخریج کے لیے دیکھئے مذکورہ بالا حدیث۔
وضاحت: (تشریح احادیث 721 سے 725) کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے اور جھاڑنے کا ذکر قرآن پاک میں نہیں ہے، لیکن احادیثِ صحیحہ سے یہ امور ثابت ہیں، اس لئے بنا کلی اور ناک صاف کئے وضو درست نہ ہوگا۔
عائذ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہتے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، فرماتے تھے: ”جو ناک میں پانی چڑھائے وہ جھاڑے صاف کرے، اور جو استنجا کرے تو طاق عدد سے کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 730]» اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن حدیث اور معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 161]، [مسلم 237]، [أبويعلی 5909]، [ابن حبان 1438]، [الحميدي 987]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث صحيح
شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ وضو کر رہے تھے، پس انہوں نے اپنی داڑھی میں خلال کیا اور فرمایا: میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 731]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 31]، [ابن ماجه 430]، [صحيح ابن حبان 1081]، [الموارد 154]، [نيل الأوطار 184/1]
عاصم بن لقيط بن صبرہ نے اپنے والد سیدنا لقيط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جو بنی منتفق کے وفد میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وضو کرو تو پوری طرح وضو کرو، اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 732]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 142، 143]، [ترمذي 38]، [نسائي 87]، [ابن ماجه 448]، [صحيح ابن حبان 1054]، [موارد الظمآن 159]، [المنتقی 80]، [نيل الأوطار 179/1]
وضاحت: (تشریح احادیث 725 سے 728) اس حدیث اور پچھلی حدیث سے داڑھی اور انگلیوں کے درمیان خلال کرنا اور انہیں اچھی طرح سے دھونا ثابت ہوا، اور یہ دونوں چیزیں وضو کے سنن میں سے ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، اخبرنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة رضي الله عنه، قال: كان يمر بنا والناس يتوضئون من المطهرة، ويقول: "اسبغوا الوضوء"، قال: ابو القاسم صلي الله عليه وسلم:"ويل للاعقاب من النار"، قال ابو محمد: هذا اعجب إلي من حديث عبد الله بن عمرو.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنْ الْمِطْهَرَةِ، وَيَقُولُ: "أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ"، قَالَ: أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنْ النَّارِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هَذَا أَعْجَبُ إِلَيَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
محمد بن زیاد نے کہا: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سنا جو ہمارے پاس سے گزر رہے تھے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: اچھی طرح وضو کرو۔ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خشک ایڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔“ ابومحمد نے کہا: یہ روایت میرے نزدیک سیدنا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 734]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 165]، [مسلم 242]، [ترمذي 41]، [نسائي 110]، [ابن ماجه 453]، [ابن حبان 1088]
وضاحت: (تشریح احادیث 728 سے 730) اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ «اِسْبِغُوْا الْوُضُوْءَ» سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اور «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وضو کرتے وقت اگر ایڑی سوکھی ره جائے تو ایسا شخص عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن عامر بن شقيق، عن شقيق بن سلمة، قال: رايت عثمان رضي الله عنه "توضا، فمسح براسه واذنيه ظاهرهما وباطنهما، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع كما صنعت او كالذي صنعت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ "تَوَضَّأَ، فَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ أَوْ كَالَّذِي صَنَعْتُ".
شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا، انہوں نے اپنے سر اور دونوں کانوں کے ظاہر و باطن کا مسح کیا، پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے ویسے ہی وضو کیا جس طرح میں نے کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 735]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 110]، [ابن الجارود 72]، نیز دیکھئے: [نيل الأوطار 198/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 730) اس حدیث سے کان کا مسح کرنا ثابت ہوا اور یہ بھی سنن الوضوء میں سے ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا ابن لهيعة، حدثنا حبان بن واسع، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد بن عاصم المازني، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "يتوضا بالجحفة، فمضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل يديه ثلاثا، ثم مسح راسه، وغسل رجليه حتى انقاهما، ثم مسح راسه بماء غير فضل يديه"، قال ابو محمد: يريد به تفسير مسح الاول.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَتَوَضَّأُ بِالْجُحْفَةِ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يُرِيدُ بِهِ تَفْسِيرَ مَسْحِ الْأَوَّلِ.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، پس آپ نے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ (کہنیوں تک) تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو دھویا یہاں تک کہ ان کو صاف کر لیا، اور سر کا مسح ہاتھ میں بچے پانی کے بجائے نئے پانی سے کیا۔ ابومحمد نے فرمایا: آخری جملے سے، پہلے مسح کی تفسیر مقصود ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه ابن لهيعة، [مكتبه الشامله نمبر: 736]» اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کی اصل [صحيح مسلم 236]، [أبوداؤد 120]، [ترمذي 35] میں موجود ہے، اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ نیز بعض نسخ میں عبداللہ بن زید المازني عن عمہ عاصم ہے، اور بعض نسخوں میں عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی ہے اور یہی صحیح ہے۔ واللہ اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه ابن لهيعة