(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن انس رضي الله عنه، قال: "جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلما قام، بال في ناحية المسجد، قال: فصاح به اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكفهم عنه ثم دعا بدلو من ماء فصبه على بوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ، بَالَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَصَاحَ بِهِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَفَّهُمْ عَنْهُ ثُمَّ دَعَا بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ فَصَبَّهُ عَلَى بَوْلِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جب کھڑا ہوا تو مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر چیخ پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روکا، پھر پانی کا ایک ڈول منگا کر اس (پیشاب کی) جگہ پر بہا دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 767]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 219]، [مسلم 284]، [نسائي 54-55]، [أبويعلی 3467]، [ابن حبان 1401]، [الحميدي 1230]
وضاحت: (تشریح حدیث 762) اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکمت و شفقت سے بھرپور حسنِ اخلاق کا پتہ چلا اور اسے پیشاب کرنے سے نہ روکنے میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں، ایک تو یہ کہ اس طرح ڈانٹنے سے پیشاب رک جاتا اور کوئی عارضہ لاحق ہو سکتا تھا، دوسرے وہ اسی طرح اٹھ کر بھاگتا تو کپڑے اور جگہ زیادہ نجس ہوتے، تیسرے متنفر ہو کر بھاگ جاتا اور ہدایت کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔ نیز اس حدیث میں مسجد کی حرمت کا بیان ہے، ایک حدیث میں ہے کہ مسجد (عبادت کے لئے) ہے اور (پیشاب وغیرہ کیلئے) نہیں بنائی گئی ہے، نیز یہ کہ پیشاب کی جگہ کو پانی ڈال کر دھو دینا چاہئے کیونکہ پیشاب نجس ہے، اس سے وہ جگہ ناپاک ہوگئی۔
سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں جو ابھی کھانا نہیں سیکھا تھا (یعنی شیر خوار تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اس بچے نے پیشاب کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگا کر اس (کپڑے) پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 768]» یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 223]، [مسلم 286]، [نسائي 54، 55] و [صحيح ابن حبان 1373]
وضاحت: (تشریح حدیث 763) اس صحیح حدیث سے پتہ چلا کہ دودھ پینے والا (شیرخوار) بچہ اگر پیشاب کر دے تو کپڑے پر چھینٹے مارنا ہی کافی ہے، دھونے کی ضرورت نہیں، دوسری احادیث میں صراحت ہے کہ بچیوں کا پیشاب دھونا لازمی ہے اور اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، عصرِ حاضر میں اطباء نے اعتراف کیا ہے کہ بچی کا پیشاب ایسی رگوں سے آتا ہے جو نجس کر دیتی ہیں۔ واللہ علم۔
ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف سے مروی ہے کہ وہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میں اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں اور گندی زمین سے گزر ہوتا ہے (یعنی دامن ناپاک ہو جاتا ہے)، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”وہ زمیں جو اس ناپاک زمیں کے بعد آتی ہے اسے پاک کر دیتی ہے۔“ راوی نے کہا: میں نے امام دارمی سے پوچھا: آپ کا یہی فتویٰ ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔
تخریج الحدیث: «في إسناده جهالة ولكنه صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 769]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 383]، [ترمذي 143]، [ابن ماجه 531]، نیز اس کا شاہد [بخاري 222]، [مسلم 286]، [أبويعلی 4623] و [ابن حبان 1372] میں ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 764) امام دارمی رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا کیونکہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ نجاست اگر مرطوب ہو تو دھونا لازمی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده جهالة ولكنه صحيح بشواهده
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، حدثنا عوف، حدثني ابو رجاء العطاردي، عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، ثم نزل فدعا بوضوء فتوضا، ثم نودي بالصلاة فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل في القوم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما منعك يا فلان ان تصلي في القوم؟"، فقال: يا رسول الله، اصابتني جنابة، ولا ماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"عليك بالصعيد، فإنه يكفيك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيُّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ نُودِيَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْقَوْمِ؟"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، وَلَا مَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ، فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالا، وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، پھر اذان دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اور سلام پھیر کر مڑے تو دیکھا ایک آدمی الگ تھلگ کھڑا ہے، نماز بھی نہیں پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے جنابت ہو گئی اور پانی ہے نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مٹی سے کام نکالو یہی تمہارے لئے کافی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 770]» یہ حدیث متفق علیہ ہے، اور بڑی تفصیل سے صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھئے: [بخاري 344]، [مسلم 682]، [ابن حبان 1301]، [ابن الجارود 122]، [البيهقي فى دلائل النبوة 277/4]
وضاحت: (تشریح حدیث 765) یعنی تیمّم کر لو کافی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پانی کی غیر موجودگی میں وضو اور غسل کے بجائے تیمّم کافی ہے۔ فرمانِ الٰہی بھی ہے: « ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ﴾[المائده: 6] » یعنی: ”تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمّم کر لو، اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لو۔ “
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن إسحاق، حدثني عبد الله بن نافع، عن الليث بن سعد، عن بكر بن سوادة، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: خرج رجلان في سفر، فحضرتهما الصلاة، وليس معهما ماء، فتيمما صعيدا طيبا، فصليا، ثم وجدا الماء بعد في الوقت، فاعاد احدهما الصلاة بوضوء، ولم يعد الآخر ثم اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك، فقال للذي لم يعد: "اصبت السنة واجزاتك صلاتك"، وقال للذي توضا واعاد:"لك الاجر مرتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَتْهُمَا الصَّلَاةُ، وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ، فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا، فَصَلَّيَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ بَعْدُ فِي الْوَقْتِ، فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ بِوُضُوءٍ، وَلَمْ يُعِدْ الْآخَرُ ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: "أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ"، وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ:"لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو شخص سفر میں تھے، نماز کا وقت آ گیا، ان کے ساتھ پانی نہیں تھا، لہٰذا دونوں نے پاک مٹی سے تیمّم کیا اور نماز پڑھ لی، پھر انہیں پانی مل گیا اور نماز کا وقت باقی تھا، ایک شخص نے وضو کیا اور دوبارہ نماز دہرائی، دوسرے نے نہیں دہرائی، اس کے بعد جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ماجرا بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں دہرائی: ”تم نے سنت پر عمل کیا اور تمہاری نماز ہو گئی۔“(کافی رہی)، اور دوسرے شخص سے فرمایا جس نے نماز دہرائی تھی: ”تمہارے لئے ڈبل ثواب ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 771]» اس حدیث کی سند حسن ہے، اور اسے [أبوداؤد 338]، [نسائي 433]، [دارقطني 189/1]، [بيهقي 231/1] وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 766) (یعنی تمہیں دو نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں نماز دہرانا ضروری نہیں، اور اگر پانی مل جائے اور نماز کا وقت باقی ہو تو نماز دہرانے میں ڈبل ثواب و اجر ہے۔
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیمّم کے بارے میں فرماتے تھے کہ ”چہرے اور ہاتھوں کے لئے ایک بار زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس کی سند صحیح ہے۔ یعنی ایک بار زمین پر ہاتھ مار کر چہرے اور ہاتھوں پر مل لیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 772]» اس حدیث کی سند صحیح ہے، جیسا کہ امام دارمی نے فرمایا: دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1303]، [مسند الحميدي 144]، [ابن الجارود 126]، [دارقطني 182/1] وغيرهم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، انها "استعارت قلادة من اسماء رضي الله عنها فهلكت، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا من اصحابه في طلبها، فادركتهم الصلاة، فصلوا من غير وضوء، فلما اتوا النبي صلى الله عليه وسلم شكوا ذلك إليه، فنزلت آية التيمم"، فقال اسيد بن حضير: جزاك الله خيرا، فوالله ما نزل بك امر قط، إلا جعل الله لك منه مخرجا، وجعل للمسلمين فيه بركة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّهَا "اسْتَعَارَتْ قِلَادَةً مِنْ أَسْمَاءَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَهَلَكَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمْ الصَّلَاةُ، فَصَلَّوْا مِنْ غَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ"، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار مانگ کر لیا وہ گم ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے چند لوگوں کو اس کو ڈھونڈنے کے لئے بھیجا، وہاں نماز کا وقت آ گیا اور پانی نہ ملا تو ان لوگوں نے بے وضو نماز پڑھ لی، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آئے تو یہ معاملہ بیان کیا، اسی وقت تیمّم کی آیت نازل ہوئی تو سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کو الله تعالیٰ اچھا بدلہ دے، اللہ کی قسم جب بھی کوئی آفت آپ پر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ٹال دیا، اور اس کو مسلمانوں کے لئے باعث برکت بنا دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 773]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 334]، [مسلم 367] و [صحيح ابن حبان 1300]
وضاحت: (تشریح احادیث 767 سے 769) اس سے معلوم ہوا کہ مٹی، پانی کچھ بھی نہ ملے تو نماز پڑھ لی جائے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے [نيل الأوطار 267/1] میں اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے: اہلِ تحقیق نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ اگر کہیں پانی اور مٹی دونوں نہ ملیں تب بھی نماز واجب ہے، حدیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے، انہوں نے پانی نہیں پایا تھا، پھر بھی نماز کو واجب جان کر ادا کر لیا، اگر ان کا بلا وضو نماز پڑھنا درست نہ ہوتا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ان پر انکار فرماتے۔ لہٰذا یہی حکم اس کے لئے ہے جو پانی نہ پائے، نہ اسے مٹی ملے، اس لئے کہ طہارت انہیں دو چیزوں سے حاصل کی جاتی ہے تو اس کو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا، جمہور محدثین کا یہی فتویٰ ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا زائدة، عن سليمان، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة رضي الله عنها، قالت: وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم ماء "فافرغ على يديه، فجعل يغسل بها فرجه فلما فرغ، مسحها بالارض او بحائط شك سليمان، ثم تمضمض واستنشق، فغسل وجهه وذراعيه وصب على راسه وجسده، فلما فرغ تنحى، فغسل رجليه"، فاعطيته ملحفة،"فابى، وجعل ينفض بيده"، قالت: فسترته حتى اغتسل، قال سليمان: فذكر سالم ان غسل النبي صلى الله عليه وسلم هذا كان من جنابة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً "فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَغْسِلُ بِهَا فَرْجَهُ فَلَمَّا فَرَغَ، مَسَحَهَا بِالْأَرْضِ أَوْ بِحَائِطٍ شَكَّ سُلَيْمَانُ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ تَنَحَّى، فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ"، فَأَعْطَيْتُهُ مِلْحَفَةً،"فَأَبَى، وَجَعَلَ يَنْفُضُ بِيَدِهِ"، قَالَتْ: فَسَتَرْتُهُ حَتَّى اغْتَسَلَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَذَكَرَ سَالِمٌ أَنَّ غُسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا كَانَ مِنْ جَنَابَةٍ.
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (غسل) کے لئے پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھوں پر انڈیلا، پھر شرمگاہ کو دھویا، اس کے بعد اس ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر (یہ سلیمان کا شک ہے) رگڑا، پھر کلی کی، ناک جھاڑی، چہرے اور ہاتھ کہنی تک دھوئے، اور اپنے سر و جسد مبارک کے اوپر پانی ڈالا، غسل سے فارغ ہوئے تو دور ہٹ کر دونوں پیر دھوئے۔ میں نے آپ کو چادر پیش کی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور ہاتھ سے ہی پانی سونتنے لگے۔ سلیمان سے مروی ہے سالم نے کہا: یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 774]» اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 249]، [مسلم 317]، [أبوداؤد 245]، [ترمذي 103]، [نسائي 253]، [ابن ماجه 467]، [أبويعلی 7101]، [ابن حبان 1190]
وضاحت: (تشریح حدیث 769) اس حدیث سے غسلِ جنابت کا طریقہ معلوم ہوا، پہلے نجاست دور کی جائے، پھر وضو کر کے سارے بدن پر پانی بہایا جائے، پیر اس جگہ سے دور ہٹ کر دھوئے جائیں، تولیہ سے بدن پونچھنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، اگر تولیہ سے بدن پونچھا جائے تو کوئی حرج بھی نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت انکار کیا تو کسی وقت استعمال بھی کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يبدا فيغسل يديه، ثم يتوضا وضوءه للصلاة، ثم يدخل كفه في الماء فيخلل بها اصول شعره حتى إذا خيل إليه انه قد استبرا البشرة، غرف بيده ثلاث غرفات فصبها على راسه، ثم اغتسل"، قال ابو محمد: هذا احب إلي من حديث سالم بن ابي الجعد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ كَفَّهُ فِي الْمَاءِ فَيُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعْرِهِ حَتَّى إِذَا خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ اسْتَبْرَأَ الْبَشَرَةَ، غَرَفَ بِيَدِهِ ثَلَاثَ غَرَفَاتٍ فَصَبَّهَا عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حَدِيثِ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل شروع کرتے تو پہلے ہاتھ دھوتے، پھر جیسے نماز کے لئے وضو کرتے ویسا ہی وضو کرتے، پھر ہاتھ میں پانی لے کر بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے، اور جب اطمینان ہو جاتا کہ جڑوں تک پانی پہنچ گیا ہے تو تین بار چلو بھر کر اپنے سر پر پانی ڈالتے، پھر غسل فرماتے۔ امام دارمی ابومحمد رحمہ اللہ نے کہا: یہ طریقہ میرے نزدیک سالم بن ابی الجعد کی روایت سے زیادہ محبوب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 775]» یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 248]، [مسلم 316]، [أبوداؤد 242]، [ترمذي 104]، [أبويعلی 4482]، [ابن حبان 1191] و [مسند الحميدي 163]
وضاحت: (تشریح حدیث 770) یہ روایت بھی صحیح ہے اور اس میں صرف وضو کامل کا بیان ہے، یعنی وضو کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر بھی دھو لیا کرتے تھے، دونوں روایات صحیح ہیں اس لئے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جائے صحیح ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: "كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من الجنابة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ الْجَنَابَةِ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 776]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن دوسری کتب احادیث [صحيح بخاري 250] و [صحيح مسلم 319] میں صحیح سند سے مروی ہے جو متفق علیہ ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند موصلي 4412]، [صحيح ابن حبان 1108]، [مسند الحميدي 159]