حدثنا احمد بن يعقوب، قال: حدثنا يزيد بن المقدام بن شريح بن هانئ الحارثي، عن ابيه المقدام، عن شريح بن هانئ قال: حدثني هانئ بن يزيد، انه لما وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم مع قومه، فسمعهم النبي صلى الله عليه وسلم وهم يكنونه بابي الحكم، فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”إن الله هو الحكم، وإليه الحكم، فلم تكنيت بابي الحكم؟“ قال: لا، ولكن قومي إذا اختلفوا في شيء اتوني فحكمت بينهم، فرضي كلا الفريقين، قال: ”ما احسن هذا“، ثم قال: ”ما لك من الولد؟“ قلت: لي شريح، وعبد الله، ومسلم، بنو هانئ، قال: ”فمن اكبرهم؟“ قلت: شريح، قال: ”فانت ابو شريح“، ودعا له وولده. وسمع النبي صلى الله عليه وسلم قوما يسمون رجلا منهم: عبد الحجر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”ما اسمك؟“، قال: عبد الحجر، قال: ”لا، انت عبد الله“. قال شريح: وإن هانئا لما حضر رجوعه إلى بلاده اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اخبرني باي شيء يوجب لي الجنة؟ قال: ”عليك بحسن الكلام، وبذل الطعام.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ الْحَارِثِيُّ، عَنْ أَبِيهِ الْمِقْدَامِ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ قَالَ: حَدَّثَنِي هَانِئُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ قَوْمِهِ، فَسَمِعَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ يُكَنُّونَهُ بِأَبِي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تَكَنَّيْتَ بِأَبِي الْحَكَمِ؟“ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلاَ الْفَرِيقَيْنِ، قَالَ: ”مَا أَحْسَنَ هَذَا“، ثُمَّ قَالَ: ”مَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟“ قُلْتُ: لِي شُرَيْحٌ، وَعَبْدُ اللهِ، وَمُسْلِمٌ، بَنُو هَانِئٍ، قَالَ: ”فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟“ قُلْتُ: شُرَيْحٌ، قَالَ: ”فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ“، وَدَعَا لَهُ وَوَلَدِهِ. وَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يُسَمُّونَ رَجُلا مِنْهُمْ: عَبْدَ الْحَجَرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا اسْمُكَ؟“، قَالَ: عَبْدُ الْحَجَرِ، قَالَ: ”لَا، أَنْتَ عَبْدُ اللَّهِ“. قَالَ شُرَيْحٌ: وَإِنَّ هَانِئًا لَمَّا حَضَرَ رُجُوعُهُ إِلَى بِلادِهِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِأَيِّ شَيْءٍ يُوجِبُ لِيَ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: ”عَلَيْكَ بِحُسْنِ الْكَلامِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ.“
سیدنا ہانی بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سنا کہ وہ مجھے ابوالحکم کہہ کر بلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: ”حکم تو صرف اللہ ہے اور حکم بھی اسی کا ہے۔ پھر تم نے کنیت ابوالحکم کیوں رکھی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ میری قوم میں جب کسی معاملے میں اختلاف ہو جاتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں جس سے دونوں گروہ راضی ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اچھی بات ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے کتنے بچے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: میرے تین بیٹے شریح، عبداللہ اور مسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان میں سے بڑا کون ہے؟“ میں نے کہا: شریح۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تم ابوشریح ہو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے بھی دعا فرمائی۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ اپنے ایک آدمی کو عبدالحجر کہہ کر بلا رہے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: عبدالحجر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تم عبداللہ ہو۔“ شریح کہتے ہیں کہ میرے والد ہانی کا وطن لوٹنے کا پروگرام بنا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے وہ چیز بتائیں جو میرے لیے جنت کو واجب کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھی گفتگو اور کثرت سے کھانا کھلانے کو لازم پکڑو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 4955 و النسائي، آداب القضاة: 5389 و فى الكبرىٰ: 5940 و صححه ابن حبان: 1957 و رواه الحاكم: 23/1»
حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا سلم بن قتيبة، قال: حدثنا حمل بن بشير بن ابي حدرد قال: حدثني عمي، عن ابي حدرد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من يسوق إبلنا هذه؟“ او قال: ”من يبلغ إبلنا هذه؟“ قال رجل: انا، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: فلان، قال: ”اجلس“، ثم قام آخر، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: فلان، فقال: ”اجلس“، ثم قام آخر، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: ناجية، قال: ”انت لها، فسقها.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمْلُ بْنُ بَشِيرِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ أَبِي حَدْرَدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ يَسُوقُ إِبِلَنَا هَذِهِ؟“ أَوْ قَالَ: ”مَنْ يُبَلِّغُ إِبِلَنَا هَذِهِ؟“ قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: فُلاَنٌ، قَالَ: ”اجْلِسْ“، ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: فُلاَنٌ، فقَالَ: ”اجْلِسْ“، ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: نَاجِيَةُ، قَالَ: ”أَنْتَ لَهَا، فَسُقْهَا.“
سیدنا ابوحدرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے یہ اونٹ کون ہانکے گا؟“ یا فرمایا: ”ہمارے ان اونٹوں کو کون پہنچائے گا؟“ ایک آدمی نے عرض کیا: میں یہ خدمت سر انجام دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ۔“ پھر ایک اور شخص اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ۔“ پھر ایک اور کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: میرا نام ناجیہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کام کے لیے ہو، تم ان اونٹوں کو لے جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى عاصم فى الآحاد: 2370 و الروياني فى مسنده: 1479 و الطبراني فى الكبير: 353/22 و الحاكم: 276/4 - انظر الضعيفة: 4804»
حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا جرير، عن قابوس، عن ابيه، عن ابن عباس قال: اقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم مسرعا ونحن قعود، حتى افزعنا سرعته إلينا، فلما انتهى إلينا سلم، ثم قال: ”قد اقبلت إليكم مسرعا، لاخبركم بليلة القدر، فنسيتها فيما بيني وبينكم، فالتمسوها في العشر الاواخر.“حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقْبَلَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا وَنَحْنُ قُعُودٌ، حَتَّى أَفْزَعَنَا سُرْعَتُهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيْنَا سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ”قَدْ أَقْبَلْتُ إِلَيْكُمْ مُسْرِعًا، لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَنَسِيتُهَا فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأوَاخِرِ.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے تشریف لائے جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے جلدی آئے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جلدی سے گھبرا گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا، پھر فرمایا: ”میں تمہارے پاس جلدی آیا تھا تاکہ تمہیں ليلۃ القدر کی خبر دوں، پھر میں تمہارے پاس آتے آتے بھول گیا، لہٰذا اب تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره دون سبب الحديث و الإسراع: أخرجه أحمد: 2352 و الطبراني فى الكبير: 110/12 - الضعيفة: 6338»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره دون سبب الحديث و الإسراع
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا احمد، قال: حدثنا هشام بن سعيد، قال: اخبرنا محمد بن مهاجر قال: حدثني عقيل بن شبيب، عن ابي وهب، وكانت له صحبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”تسموا باسماء الانبياء، واحب الاسماء إلى الله عز وجل: عبدالله، و عبدالرحمن، واصدقها: حارث، وهمام، واقبحها: حرب، ومرة۔“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الأسْمَاءِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: عَبْدُاللهِ، وَ عَبْدُالرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا: حَارِثٌ، وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا: حَرْبٌ، وَمُرَّةُ۔“
سیدنا ابووہب جشمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء کے ناموں پر نام رکھو، اور الله تعالیٰ کو سب سے محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں، اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح دون جملة الأنبياء: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 4950 و النسائي: 3595 و هو فى الكبرىٰ: 4406 - انظر الصحيحة: 1040»
حدثنا صدقة، قال: حدثنا ابن عيينة، قال: حدثنا ابن المنكدر، عن جابر قال: ولد لرجل منا غلام فسماه: القاسم، فقلنا: لا نكنيك ابا القاسم ولا كرامة، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”سم ابنك عبد الرحمن.“حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلاَمٌ فَسَمَّاهُ: الْقَاسِمَ، فَقُلْنَا: لاَ نُكَنِّيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلاَ كَرَامَةَ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”سَمِّ ابْنَكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ ہم نے کہا: ہم تمہیں ابوالقاسم کہہ کے پکاریں گے اور نہ اعزاز دیں گے۔ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن رکھ لو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب أحب الأسماء إلى الله عز و جل: 6186 و مسلم: 2133»
حدثنا سعيد بن ابي مريم، قال: حدثنا ابو غسان قال: حدثني ابو حازم، عن سهل قال: اتي بالمنذر بن ابي اسيد إلى النبي صلى الله عليه وسلم حين ولد، فوضعه على فخذه، وابو اسيد جالس، فلهى النبي صلى الله عليه وسلم بشيء بين يديه، وامر ابو اسيد بابنه فاحتمل من فخذ النبي صلى الله عليه وسلم، فاستفاق النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”اين الصبي؟“ فقال ابو اسيد: قلبناه يا رسول الله، قال: ”ما اسمه؟“ قال: فلان، قال: ”لا، لكن اسمه المنذر“، فسماه يومئذ المنذر.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ قَالَ: أُتِيَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَيْدٍ جَالِسٌ، فَلَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَمَرَ أَبُو أُسَيْدٍ بِابْنِهِ فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفَاقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”أَيْنَ الصَّبِيُّ؟“ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: قَلَبْنَاهُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ”مَا اسْمُهُ؟“ قَالَ: فُلاَنٌ، قَالَ: ”لَا، لَكِنِ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ“، فَسَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ الْمُنْذِرَ.
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ منذر بن ابى اسید پیدا ہوئے تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول ہو گئے، سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فارغ ہو کر توجہ فرمائی تو پوچھا: ”بچہ کہاں ہے؟“ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے گھر بھیج دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا نام کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس کا نام منذر ہے۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن اس کا نام منذر رکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6191 و مسلم: 2149 - انظر المشكاة: 4759»
حدثنا ابو اليمان، قال: حدثنا شعيب بن ابي حمزة، قال: حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اخنى الاسماء عند الله رجل تسمى ملك الاملاك.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَخْنَى الأسْمَاءِ عِنْدَ اللهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأمْلاكِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک سب سے قبیح نام یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو ملك الأملاك (بادشاہوں کا بادشاہ) کہلوائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6205 و مسلم: 2143 و أبوداؤد: 4961 و الترمذي: 2837»
حدثنا موسى، قال: حدثنا القاسم بن الفضل، عن سعيد بن المهلب، عن طلق بن حبيب قال: كنت اشد الناس تكذيبا بالشفاعة، فسالت جابرا، فقال: يا طليق، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”يخرجون من النار بعد دخول“، ونحن نقرا الذي تقرا.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُهَلَّبِ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ: كُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ تَكْذِيبًا بِالشَّفَاعَةِ، فَسَأَلْتُ جَابِرًا، فَقَالَ: يَا طُلَيْقُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ دُخُولٍ“، وَنَحْنُ نَقْرَأُ الَّذِي تَقْرَأُ.
طلق بن حبيب رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں شفاعت کا انکار کرنے والوں میں سب سے زیادہ متشدد تھا، چنانچہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اے طليق! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”لوگوں کو جہنم میں داخل ہونے کے بعد نکالا جائے گا۔“ اور ہم بھی وہ قرآن پڑھتے ہیں جو تم پڑھتے ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 14535 و ابن الجعد: 3383 و مسلم، بمعناه مطولًا، كتاب الإيمان: 320 - انظر الصحيحة: 3055»
حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي، قال: حدثنا محمد بن عثمان القرشي، قال: حدثنا ذيال بن عبيد بن حنظلة قال: حدثني جدي حنظلة بن حذيم قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه ان يدعى الرجل باحب اسمائه إليه، واحب كناه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ذَيَّالُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي حَنْظَلَةُ بْنُ حِذْيَمَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ أَنْ يُدْعَى الرَّجُلُ بِأَحَبِّ أَسْمَائِهِ إِلَيْهِ، وَأَحَبِّ كُنَاهُ.
سیدنا حنظلہ بن حذيم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی کو اس کے سب سے زیادہ پسندیدہ نام اور سب سے زیادہ پسندیدہ کنیت سے بلایا جائے۔
حدثنا صدقة بن الفضل، قال: حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي غير اسم عاصية وقال: ”انت جميلة.“حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ غَيْرَ اسْمَ عَاصِيَةَ وَقَالَ: ”أَنْتِ جَمِيلَةُ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ کا نام بدل دیا اور فرمایا: ”تم جمیلہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الأدب: 2139 و أبوداؤد: 4952 و الترمذي: 2838 و ابن ماجه: 3733»